تعالیٰ نے ایک اشاعت کا ذریعہ بنایا ہے اس کی وہی مثال ہے کہ ؎ عدو شود سبب خیر گر خد اخواہد حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ پھر تو ہم کو بھی ضرور لکھنا چاہئے جب انہوں نے بطور ہدیہ کے کتاب ہمیں بھیجی تو ہمیں بھی ہدیہ بھیجنا چاہئے یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں۔مخالفوں کی توجہ سے بہت کام بنتا ہے میں نے آزمایا ہے کہ جہاں مخالف ٹھوکر کھاتا ہے وہاں ہی ایک بڑی حکمت کی بات ہوتی ہے۔ جو بات سمجھ نہ آئے دریافت کر لینی چاہئے حسب دستور حضرت اقدس قبل از نماز عشاء تشریف لائے ایک خادم کی نسبت ایک شخص کو غلط فہمی ہوئی تھی کہ اس نے نعوذباﷲ حضرت کے کسی فعل پر اعتراض کیا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا جب اس بیچارے کو خبر ہوئی تو اس نے مولانا عبدالکریم صاحب کی خدمت میں آکر اصل واقعہ بتلایا اور عرض کی‘راوی کو غلط فہمی ہوئی ہ یورنہ میرا ایمان ہے کہ حضور کا ہر فعل‘فعل الٰہی ہے جس پر اعتراض کرنا سخت درجہ کا کفر اور ضلالات ہے مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے اٹھ کر اصل واقعہ حضرت اقدس کی خدمت میں گذارش کیا اور خود اس خادم نے بھی عرض کی جس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ اوائل میں جماعت میں ایسی بات ہوا کرتی ہے اسی طرح جب پیغمبر خد ا(ﷺ) مدینہ میں تشریف لائے تھے تو آپؐ نے کچھ زمین ایک صحابی سے خریدنی چاہی تو اس نے کہا کہ میں نے اپنے لڑکوں کے لئے رکھی ہے حالانکہ سب کچ تو آپؐ کے ہاتھ پر فروخت کر چکا ہوا تھا آخر وہی اصحاب تھے کہ جنہوں نے سب دینی ضرورتون کو مقدم رکھا اور اپنی جانوں تک کو قربان کر دیا۔ہماری جماعت کو چاہئے کہ ہمیشہ خیال رکھے کہ بعض امور تو سمجھ میں آسکتے ہیں اور بعض نہیں آسکتے تو جو سمجھ میں نہ آیا کریں ان کو پس پشت نہ کیا جاوے وہ دریافت کر لینے چاہئیں۔نیکی اسی کا نام ہے ورنہ حبط اعمال ہو جاتا ہے یہ ہمارا معاملہ اور کاروبار سب خد اکا ہے ہمارے نفس کو اس میں دخل نہین ہم نے اس خطا کو بخشا اور معاف کیا۔؎ٰ