کوئی گاڈ کہتا ہے کوئی اور نام رکھتا ہے۔مگر جب عملی پہلو سے ان کے اس ایمان اور اقرار کا امتحان لیا جاوے اور دیکھا جاوے تو کہنا پڑے گا کہ وہ نرا دعویٰ ہے جس کے ساتھ عملی شہادت کوئی نہیں۔ انسان کی فطرت میں یہ امر وقعہ ہے کہ وہ جس چیز پر یقین لاتا ہے اس کے نقصانات سے بچنے اور اس کے منافع کو لینا چاہتا ہے دیکھو سنکھیا ایک زہر ہے اور انسان جبکہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ اس کی ایک رتی بھی ہلاک کرنے کو کافی ہے تو کبھی وہ اس کو کھانے کے لئے دلیری نہیں کرتا اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کا کھانا ہلاک ہونا ہے پھر کیوں وہ خد اتعالیٰ کو مان کر ان نتائج کو پیدا نہیں کرتا جو ایمان باﷲ کے ہیں۔اگر سنکھیا کے برابر بھی اﷲ تعالیٰ پر ایمان ہو تو اس کے جذبات اور جوشوں پر موت وارد ہو جاوے مگر نہیں۔یہ کہنا پڑے گا کہ نرا قول ہی قول ہے ایمان کو یقین کا رنگ نہیں دیا گیا ہے یہ اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے اور دھوکا کھاتا ہے جو کہتا ہے کہ میں خدا کو مانتا ہوں۔ پس پہلا فرض انسان کا یہ ہے کہ وہ اپنے اس ایمان کو درست کرے جو وہ اﷲ پر رھکتا ہے یعنی اس کو اپنے اعمال سے ثابت کر دکھائے کہ کوئی فعل ایسا اس سے سرزد نہ ہو جو اﷲ تعالیٰ کی شان اور اس کے اح کام کے خلاف ہو۔ یہ دھوکا جو انسان کو لگتا ہے کہ وہ خدا کو مانتا ہے باوجودیکہ عملی شہادت اس ایمان کے ساتھ نہیں ہوتی درحقیقت یہ بھی ایک قسم کی مرض ہے جو خطرناک ہے مرض دو قسم کی ہوتی ہے ایک مرض مختلف ہوتی ہے یہ وہ ہوتی ہے جس کا درد محسوس ہوتا ہے جیسے سردرد یا درد گردہ وغیرہ۔دوسری قسم کی مرض مرض مستوی کہلاتی ہے اس مرض کا درد محسوس نہیں ہوتا اور اس لئے مریض ایک طرح اس کے علاج سے تساہل اور غفلت کرتا ہے جیسے برص کا داغ ہوتا ہے بظاہر کوئی درد یا دکھ محسوس نہیں ہوتا لیکن آخر کو یہ خطرناک نتائج پیدا کرتا ہے پس خد اپر ایسا ایمان جو عملی شہادتیں ساتھ نہیں رکھتا ہے ایک قسم کی مرض مستوی ہے۔صرف رسم و عادت کے طور پر مانتا ہے یا یہ کہ باپ دادا سے سنا تھا کہ کوئی خدا ہے اس لئے مانتا ہے اپنی ذات پر محسوس کرکے کب اس نے اﷲ کا اقرار کیا؟یہ اقرار جس دن اس رنگ میں پیدا ہوت اہے ساتھ ہی گناہوں کے میل کچیل کو جلا کر صاف کر دیتا ہے اور اس کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں جب تک آثار ظاہر نہ ہوں‘ ماننا نہ ماننا برابر ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ یقین نہیں ہوتا اور یقین کے بغیر ثمرات ظاہر نہیں ہو سکتے دیکھو جن خطرات کا انسان کو یقین ہوتا ہے ان کے نزدیک ہرگز نہیں جاتا مثلاً یہ خطرہ ہو کہ گھر