۲۶؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز جمعہ سفر کریں تو دین کی نیت سے کریں عصر کے وقت حضرت اقدس تشریف لائے تو احباب میں سے ایک نے خواجہ کمال الدین صاحب کی وساطت سے سوال کیا کہ دربار دہلی میں شامل ہونے کا بہت شوق ہے۔اگر اجازت ہو تو ہو آئوں۔میں تو دل کو بہت روکتا ہوں مگر پھر بھی خیال غالب رہتا ہے کہ ہو آئوں۔ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ ہو آویں کیا حرج ہے۔ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جنید بغدادی علیہ الرحمۃ کو ایک دفعہ خیال آیا کہ سفر کو جانا چاہئے پھر سوچا کس واسطے جائوں تو سمجھ میں نہ آیا کہ کس ارادہ اور نیت سے جانا چاہتے ہیں اس لئے پھر ارادہ ترک کیا حتیٰ کہ سفر کا خیال غالب آیا اور آپ جب اسے مغلوب نہ کرسکے تواس کو ایک تحریک الٰہی خیال کرکے نکل پڑے اور ایک طرف کو چلے۔آگے جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک درخت کے تلے ایک شخص بے دست وپا پڑا ہے۔اس نے ان کو دیکھتے ہی کہا کہ اے جنید! میں کتنی دیر سے تیرا منتظر ہوں تو دیر لگا کر کیوں آیا ۔تب آپ نے کاہ کہ اصل میں تیری ہی کشش تھی جو مجھے بار بار مجبور کرتی تھی تو اسی طرح ہر ایک امر میں ایک کشش قضا وقدر میں مقدر ہوتی ہے وہ پوری نہ ہو تو آرام نہیں آتا۔آپ سفر کریں تودین کی نیت سے کریں دنیا کی نیت سے جو سفر ہوتا ہے وہ گناہ ہوتا ہے اور انسان تب ہی درست ہوتا ہے کہ ہر ایک بات مٰں کچھ نہ کچھ اس کا رجوع دین کا ہو۔ہر ایک مجلس میں اس نیت سے جاوے کہ کچھ پہلو دین کا حاصل ہو۔حدیث شریف میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے مکان بنوایا ۔پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ آپ وہاں تشریف لے چلیں تو آپ کے قدموں سے برکت ہو۔جب وہاں حضرت گئے تو آپ نے ایک دریچہ دیکھا پوچھا کہ یہ کیوں رکھا ہے اس نے عرض کی کہ ہوا ٹھنڈی آتی