ہمارے لئے برکت ہوتی ہے اور جو لکھتا ہے ہماری خیر کے لئے لکھتا ہے ورنہ پھر تحریک کیسے ہو۔
عیسائیت اختیار کرنے والے مسلمان
لوگوں کے عیسائی ہونے کے ذکر پر فرمایا کہ :-
اصل سچی بات یہی ہے کہ بجز ان لوگوں کے جن کی فطرت میں خدا تعالیٰ نے سعادت رکھی ہے اور وہ احقاقِ حق چاہتے ہیں باقی سب اکل و شرب کے واسطے عیسائی ہوتے ہیں اور اسلام سے ان کو کوئی منسبت نہیں رہتی۔
اسلام میں تقویٰ‘طہارت‘پاکیزگی‘صوم و صلٰوۃ وغیرہ سب بجا لانا پڑتاہے وہ لوگ اسے بجا نہیں لا سکتے حقیقت اسلام کی طرف نظر کی جاوے تو جن کی فطرت میں عیاشی بھری ہوئی ہے ان کو لے کر (یعنی مسلمان کرکے) ہم کیا کریں۔جہاں کہیں ان کی نفسنای اغراض پوری ہوں گی وہ وہاں ہی رہیں گے ان کو مذہب اسلام سے کیا کام۔جب ان کی اغراض میں فرق آئے پھر وہاں سے چلے جائیں گے۔ایسے لوگ بہت ہیں مگر ان کے لانے سے کیا فائدہ؟اس شخص کو لانا چاہئے جسے اول پہچانا جائے کہ اس کے اندر اسلام کو قبول کرنے کا مادہ موجود ہے تزکیہ نفس اور تقویٰ اختیار کر سکے گا اور ذرا سے ابتلا سے گھبرا نہ جائے گاتو ایسا شخص اگر مشرف باسلام ہو وے تو اس سے فائدہ ہوا کرتا ہے۔میری طبیعت بیزار ہوتی ہے خواہ کوئی ہندو میرے پاس آوے یا عیسائی۔مگر دنیا کے گند سے بھرا ہوا ہو کہ جب ذکر کرتا ہے تو دنیا کا اور جو خیال ہے دنیا کا۔تو ایسے آدمی کو مسلمان کر کے کیا کیا جائے گا؟ رسوﷲ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایسا ہی تھا۔جو لوگ متقی نہ رہے آخر وہ کافر ہو گئے۔ہماری جماعت کو چاہئے کہ تقوٰیٰ میں ترقی کرے۔۱؎ و ۲؎