کہ دنیا کی ساری عظمتیں اور بزرگیاں ان کی نگاہ میں ہیچ ہو جاتی ہے او راگر خدا کو دیکھنے کی آنکھیں اور اس کے دریافت کرنے کے حواس سے اس دنیا میں اس کو حصہ نہیں ملا توا س دوسرے عالم میں بھی نہیں دیکھ سکے گا۔
پس اللہ تعالیٰ کو جیسا کہ وہ ہے کسی غلطی کے بدوں شناخت کرنا اوراسی دنیا میں سچے اور صحیح طور پر اس کی ذات وصفات کی معرفت حاصل کرنا ہی تمام روشنیوں اور تجلیات کی کلید ہے اسی سے وہ آگ پیدا ہوتی ہے جو پہلے انسان کی گنہ گار حالت پر موت وارد کر تی ہے اوراس کو جلا دیتی ہے اور پھر اس کو وہ نور عطا کرتی ہے جو جس سے وہ گناہ کو شناخت کرتا اور اس کی زہر پر اطلاع پاکر اس سے ڈرتا اور دور بھاگتا ہے پس یہی وہ دوقسم کی آگ ہے جو ایک طرف گناہ کو جلاتی ہے اور دوسری طرف نیکیوں کی قدرت عطا کرتی ہے اور کا نام جلال او ر جمال کی آگ ہے کیونکہ گناہ سے تو جلالی رنگ اورہیبت ہی سے بچ سکتا ہے جب یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ اس گناہ کی سزا میںہے اور مالک یوم الدین ہے تو انسان پر ایک ہیبت طاری ہو جائے گی جو اس کو گناہ سے بچا لے گی اور جمال نیکیوں کی طرف جذب کرتا ہے جب کہ یہ معلوم ہوجائے کہ خدا تعالیٰ رب العالمین ہے رحمن ہے رحیم ہے تو بے اختیار ہو کر دل اس کی طرف کھینچا جائے گا اور ایک سرور او رلذت کے ساتھ نیکیوں کا صدور ہونے لگے گا ۔جیسے چاندی یا سونے کے صاف کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ اسے کٹھالی میں ڈال کر خوب آگ روشن کی جاوے۔اس سے کا وہ سارا میل کچیل جو ملا ہوا ہوتا ہے فی الفور الگ ہو جاتا ہے اور پھر اسکو عمدہ اور خوبصورت زیور کی شکل میں لانے کے واسطے جو کسی حسین کے لئے بنایا جائے اس بات کی ضرورت ہے پھر آگ دے کر اسے مفید مطلب بنایا جائے۔
جب تک وہ ان دونوں آگوں کے بیچ میں رکھا نہ جاوے وہ خوبصورت اور درخشاں زیور کی شکل اختیار نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح انسان جب تک جلالی اور جمالی آگ میں نہ ڈالا جائے وہ گناہ سوز فطرت لے کر نیک بننے کے قابل نہیں ہوتا۔
اس لئے پہلے گناہ جلایا جاتا ہے اور پھر جمالی آگ سے نیکی کی قوت عطا ہوتی ہے اورپھر فطرت میں ایک روشنی اور چمک آتی ہے جو نیکی اور بدی میں تمیز بنا کر نیکی کی طرف جذب کرتی ہے ۔ اس وقت نیک پیدائش ملتی ہے۔سورۃ الدہر میں اس پیدائش کی حالت کا بیان کافوری اور زنجبیلی شربت کی مثال سے دیا ہے چنانچہ پہلے فرمایا
ان الأبراریشربون من کأ س کان مزاجہا کافورا(الدہر:۶)
یعنی مومن جو خدا کے نیک بندے ہیں وہ کافوری پیالے پیتے ہیں کافور کا لفظ اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ کفرا ڈھانکنے کو کہتے ہیں ۔ اور کافور مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت ڈھانکنے والا ۔ایسے ہی طاعون بھی ہے ۔میں سمجھتا ہوں طاعون اس لئے نام رکھا ہے کہ یہ اہل حق پر طعن کرنے سے پیدا ہوتی ہے اور طاعون اور دیگر امراض وبائی ہیضہ میں کافور ایک