کہنا چاہتے ہیں کہ ایسے یقین کے خواہش مند کے لئے ضروری ہے کہ وہ’’
کونوا مع الصادقین(التوبۃ: ۱۱۹)
سے حصہ لے ۔ صادق سے صرف یہی مراد نہیںکہ انسان زبان سے جھوٹ نہ بولے یہ بات تو بہت سے ہندؤوں اور ردہریوں میں بھی ہو سکتی ہے بلکہ صادق سے مراد وہ شخص ہے جس کی ہر بات صداقت اور راستی ہونے کے علاوہ اس کے ہر حرکات وسکنات و قول سب صدق سے بھرے ہوئے ہوں گویا یہ کہو کہ اس کاوجود ہی صدق ہو گیا ہو اور اس کے اس صدق پر بہت سے تائیدی نشان اور آسمانی خوارق گواہ ہوں چونکہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے اس لئے جو شخص ایسے آدمی کے پاس جو حرکات و سکنات ، افعال و اقوال میں خدائی کا نمونہ اپنے اندر رکھتا ہے صحتِ نیت اور پاک ارادہ اور مستقیم جستجو سے ایک مدت تک رہے گا تو یقین کامل ہے کوہ اگر دہریہ بھی ہو تو آخر خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان لے آئے گا کیونکہ کہ صادق کا وجود خدانما وجود ہوتا ہے ۔
انسان اصل میں اُنْسَان سے ہے جو یعنی دو محبتوں کو مجموعہ ہے ایک انس وہ خدا سے کرتا ہے اور دوسرا انس انسان سے۔چونکہ انسان کو تو اپنے قریب پاتا ہے اور دیکھتا ہے اور اپنی بنی نوع کی وجہ سے اس سے جھٹ پٹ متاثر ہو جاتا ہے اس لئے کامل انسان کی صحبت اور صادق کی معیت اسے وہ نور عطا کرتی ہے جس سے وہ خدا کو دیکھ لیتا ہے اور گناہوں سے بچ جاتا ہے۔
انسان کے دراصل دو وجود ہوتے ہیں ایک وجود تو وہ ہے جو ماں کے پیٹ میں تیار ہوتا ہے اور جسے ہم تم سب دیکھتے ہیں، جسے لے کر وہ باہر آجاتا ہے اور یہ وجود بلاکسی فرق کے سب کوملتا ہے ،لیکن ایک اور وجود بھی انسان کو دیا جاتا ہے جو صادق کی صحبت میں تیار ہوتا ہے یہ وجود بظاہر ایسا نہیں ہوتا کہ ہم اسے چھو کر یا ٹٹول کر دیکھ لیں مگر وہ ایسا وجود ہوتا ہے کہ اس وجود پر ایک قسم کی موت وارد ہو جاتی ہے وہ خیالات ،وہ افعال اور حرکات جو اس سے پہلے صادر ہوتے تھے یا دل میں گزرتے تھے یہ ان سے بالکل الگ ہو جاتا ہے اور شبہات سے جو اس کے دل کو تاریک کئے رہتے تھے ان سے اس کو نجات مل جاتی ہے او ریہی وجود حقیقی نجات ہوتی ہے جو سچی پاکیزگی کے بعد ملتا ہے۔کیونکہ جب تک شبہات سے نجات نہیں اس کو تاریکی سے نجات نہیں اور سچی اس کو میسر نہیں ۔اور وہ خدا کو دیکھ نہیں سکتا اس کی عظمت و ہیبت کا اس کے دل پر اثر نہیں ہو سکتا اور سچ تو یہ ہے کہ وہ خدا کو دیکھ نہیں سکتا اور جو شخص اس دنیا میں خدا کے دیکھنے سے بے نصیب ہے وہ قیامت کو بھی محروم ہی ہو گا جیسے کہ خدا نے خود فرمایا ہے:
من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الآخرۃ اعمی( بنی اسرائیل:۷۳)
اس یہ یہ مراد تونہیں ہو سکتی کہ جواس دنیا میں اندھے ہیں وہ قیامت کو بھی اندھے ہوں گے بلکہ اس کا مفہوم یہی ہے کہ خدا کو ڈھونڈنے والوں کے دل نشانات سے ایسے منور کئے جاتے ہیں کہ وہ خدا کو دیکھ لیتے ہیں اور اس کی عظمت و جبروت کا مشاہدہ کر تے ہیں یہاں تک