اسی (آنحضرت ﷺ) کی خاطر ہے اور اسی کی تائید ہے تو پھر اس سے قطع تعلق کیوںکر ہو۔اور بعض وقت انگریزی‘اردو‘فارسی میں بھی الہام ہوتے ہیں تا کہ خد اتعالیٰ جتلادیوے کہ وہ ہر ایک زبان سے واقف ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فارسی زبان میں الہام
اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراص ہوا تھا کہ کسی اور زبان میں الہام کیوں نہیں ہوتا تو آپؐ کو اﷲ تعالیٰ نے فارسی زبان میں الہام کیا’’ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم‘‘ آخر کار خد اکی رحمت کاروبار کرے گی اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے یہود نے کہاتھا کہ پیغمبر آخر زمان بنی اسرائیل میں سے ہونا چاہئے تھا اور جس قدر نبی آئے ہیں سب کے بارے میں اسی طرح شبہات پڑتے رہے ہیں۔عیسیٰ ؑکے وقت یہود کو کس قدر شبہات آئے۔پیغمبر خدا (ﷺ) کے وقت میں بھی پڑے کہ بنی اسرائیل میں سے کیوں نہ آیا۔یہ عادت اﷲ ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہی مخفی رکھا جاتا ہے کہ ایمان بالغیب کی حقیقت رہے ورنہ پھر ایمان پر ثواب کیا مرتب ہو۔
حکم کا کام
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ حکم ہوگا جس کے یہ معنے ہیں کہ سچی بات پیش کرے گا اور رطب ویابس کو اٹھادے گا اور احادیث تو ذخیرہ ظنوں کا ہے شیعہ‘وہابی‘سنی وغیرہ جو تہتر فرقے اہل اسلام کے ہیں۔سب احادیث کو ہی پیش کرتے ہیں اور حکم کا کام ہے۔وہ ان میں تحقیق کرے اور جو سچی بات ہوا سے قبول کرے ورنہ پھر ہر ایک فرقہ کا حق ہے کہ اسے مجبور کرے کہ میری مان۔اور اسے کہا جا سکتا ہے کہ جب ایک کی پیش کردہ احادیث کو تم بلا اعتراض مان لیتے ہو تو کیا وجہ ہے کہ دوسرے فرقوں کی حدیثوں کو بھی ویسے ہی نہ مانا جائے۔پھر اس صورت میں وہ آنے والا حکم کیا رہا۔حکم کا لفظ بتلا رہا ہے کہ ایسے وقت میں کچھ لیا جاتا ہے اور کچھ چھوڑا جاتا ہے۔
مَوزوں پر مَسح
موزوں پر مسح کا ذکر ہوا تو حضرت اقدس نے فرمایا :-
سوتی موزوں پر بھی مسح جائز ہے اور آپ نے اپنے پائے مبارک کو دکھلایا جس میں سوتی موزے تھے کہ میں ان پر مسح کر لیا کرتا ہوں۔