ایک الہام اس کے بعد فرمایا کہ :- رات کو الہام ہوا ہے :- انہ کریم تمشی امامک وعادی من عادی یعنی وہ کریم ہے وہ تیرے آگے آگے چلتا ہے۔جس نے تیری عداوت کی (گویا) اس کی عداوت کی۔ قرآنی ترتیب کا ایک سِرّ فرمایا:- کل جو الہام ہوا تھا یاتی علیک زمن کمثل زمن موسی یہ اسی الہام کے آگے معلوم ہوتا ہے جہاں ایک الہام کا قافیہ جب دوسرے الہام سے ملتا ہے خواہ وہ الہامات ایک دوسرے سے دن دن کے فاصلہ سے ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں کا کوئی تعلق آپس میں ضرور ہے یہاں بھی موسیٰ اور عادیٰ کا قافیہ ملتا ہے اور پھر توریت میں بھی اس قسم کا مضمون ہے کہ خدا نے موسیٰ کو کہا کہ تو چل میں تیرے آگے چلتا ہوں۔ رسول کی قومی زبان میں الہام بعض لوگ جہالت سے اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں ہے کہ ہر ایک قوم کی زبان میں الہام ہونا چاہئے جیسے وماارسلنا من رسول الا بلسان قومہ (ابراہیم : ۵) مگر تم کو عربی میں ہی کیوں ہوتے ہیں؟ تو ایک تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا سے پوچھوں کہ کیوں ہوتے ہیں اور اس کا اصل سر یہ ہے کہ صرف تعلق جتلانے کی غرض سے عربی میں الہامات ہوتے ہیں کیونکہ ہم تابع ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو کہ عربی تھے۔ہمارا کا روبار سب ظلی ہے اور خد اکے لئے ہے۔پھر اگر اسی زبان میں الہام نہ ہو تو تعلق نہیں رہتا۔اس لئے خد اتعالیٰ عظمت دینے کے واسطے عربی میں الہام کرتا ہے اور اپنے دین کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے جس بات کو ہم ذوق کہتے ہیں اسی پر وہ لوگ اعتراض کرتے ہیں۔خدا تعالیٰ اصل متبوع کی زبان کو نہیں چھوڑتا۔اور جس حال میں یہ سب کچھ