نورزالدین صاحب نے عرض کی کہ ایک دہریہ کا یہ مقولہ ہے کہ خدا کی ایک ہستی ضرور ہے مگر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گلاب کا پھول ہوتا ہے اور ایک اس کی جڑھ ہوتی ہے جس سے وہ پھول نکلا ہوا ہوتا ہے۔اسی طرح خد اتو مثل جڑھ کے ہے اور ہم پھول ہیں مگر پھول جڑھ سے زیادہ عمدہ اور مفید ہوتا ہے۔اسی طرح ہم خدا سے افضل اور برتر ہیں دن بدن ترقی کر رہے ہیں۔
اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :-
اگر انکار ہو سکتا ہے تو مخلوق کے وجود کا ہوسکتاہے خدا تعالیٰ کی ذات کا تصرف ہر آن اس کے ہر ذرہ ذرہ پر اس قدر ہے کہ گویا اس کی ہستی کچھ شئے ہی نہیں اور بلا اس کے تصرف کے ہم نہ کچھ بول سکتے ہیں نہ کچھ کر سکتے ہیں۔جو طالب حق ہے وہ ہماری صحبت میں رہے۔ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایسی ہی ذات ہے جن صفات سے قرآن شریف میں لکھا ہے۔ان صفات سے ہم اسے ثابت کر کے دکھادیں گے۔بری نادانی کی بات یہ ہے کہ ایک عالم کی بات کو وہ دوسرے عالم کے حواس سے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔حالانکہ روزمرہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک حواس دوسرے حواس کا کام نہیں لے سکتے مثلاً آنکھ ناک کا اور کان آنکھ کا کام نہیں دے سکتے۔جب خارج میں یہ حالت ہے تو باطن میں وہ کیا کہہ سکتے ہیں۔بات یہ ہے کہ انسان کو ایک اور حواس ملتے ہیں۔تب یہ اﷲ تعالیٰ کو شناخت کر سکتا ہے۔بجز اس کے ہرگز نہیں کر سکتا۔ایک دہریہ سے یہ سوال ہے کہ قبل ازوقت طاقت اور اقتدار سے بھری ہوئی پیشگوئیاں جو ہم کرتے ہیں یہ کہاں سے ہوتی ہیں؟
اگر کہو یہ کوئی علم ہی ہے تو اس علم کے ذریعہ جو بھی کر سکتا ہے کرکے دکھائے۔ورنہ ماننا پڑے گا کہ ایک زبردست طاقت ہے جو الہام کر رہی ہے یہ پیشگوئیاں جو غیبوبیت کے رنگ اور طاقت اور اقتدار کے ساتھ ہوتی ہیں۔ان سے بڑھ کر اور کوئی نشان (خدا پر ایمان لانے کے واسطے) نہیں ہے نہ آسمان نہ زمین اور نہ کوئی اور شیئے۔ان پر نظر کر کے جو نتیجہ نکالیں گے اور جو بات پیش کریں گے وہ ظنی ہوگی۔یہی ایک بات (پیشگوئی والی) یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔
لیکھرام کو قتل کروانے کے الزام کا جواب
عرب صاحب نے ذکر کیا کہ ایک شخص نے کہا کہ لیکھرام کو خود اپنے کسی جماعت کے آدمی کے ذریعہ سے مروا ڈالا ہے۔اس پر فرمایا کہ :-
ہمارے ساتھ ہزارہا جماعت ہے اگر ان میں سے کسی کو کہوں کہ تم جا کر مار آئو۔تو یہ میری