آپ کی پیدائش میں بھی بشارت تھی اور آپ کی زبانی بھی۔انجیل میں بھی مسیح نے باغ کی تمثیل میں اس امر کو بیان کر دیا اہے اور اپنے آپ کو مالک باغ کے بیٹے کی جگہ ٹھہرایا ہے۔بیٹے کا محاورہ انجیل اور بائبل میں عام ہے۔اسرائیل کی نسبت آیا ہے کہاسرائیل فرزند من بلکہ نخست زادہ من است۔آخر اس تمثیل میں بتایا گیا ہے کہ بیٹے کے بعد وہ مالک خود آکر باغبانوں کو ہلاک کردے گا اور باغ دوسروں کے سپرد کر دے گا۔یہ اشارہ تھا اس امر کی طرھ کہ نبوت ان کے خاندان سے جاتی رہی۔پس مسیح کا بن باپ پیدا ہونا اس امر کا نشان تھا۔
پھر سوال کیا گیا کہ مسیح کے بن باپ پیدا ہونے پر عقلی دلیل کیا ہے؟ فرمایا :-
آدم کے بن باپ پیدا ہونے پر کیا دلیل ہے اور عقلی امتناع بن باپ پیدا ہونے میں کیا ہے ۔عقل انسان کو خدا سے نہیں ملاتی بلکہ خدا سے انکار کراتی ہے۔پکا فلسفی وہ ہوت اہے جو خدا کو نہیں مانتا۔بھلا آپ سوچ کر دیکھیں کہ اس بات میں عقل ہمیں کیا بتلاتی ہے کہ جو کچھ ہم بول رہے ہیں یہ کہاں جاتا ہے کیا کسی جگہ بند ہوت اہے یا یونہی ہوا میں اُڑ جاتا ہے۔عقل کے جس قدر ہتھیار ہیں وہ سب نکمے ہیں۔مگر ہم خد اتعالیٰ کے وعدوں اور نشانوں کو دیکھتے ہیں تب یقین کرتے ہیں کہ خد اہے۔ایک فلسفی اگر بہت خوض اور تدبر کے بعد کوئی نتیجہ نکالے گا تو وہ صرف اس قدر کہ ایک خدا ہونا چاہئے مگر ہے اور ہونا چاہئے میں بہت بڑا فرق ہے مثلا اگر ہم کہیں کہ اگر دو آنکھیں ہمارے آگے ہیں تو دو پیچھے کی طرف بھی ہونی چاہیں تھیں تا کہ انسان پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا اور اگر کوئی دشمن پیچھے سے حملہ کرنا چاہتا تو وہ اپنی حفاظت کر سکتا ۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پیچھے کی طرف آنکھیں نہیں ہیں۔اسی طرح ہے اور ہونا چاہئے میں بہت فرق ہے۔غرضیکہ عقل سے بالکل خدا تعالیٰ کا وجود ثابت نہیں ہوسکتا۔
عقل کی حیثیت
عرب صاحب نے کہا کہ اسلام کا کوئی مسئلہ عقل کے خلاف نہیں؟
حضرت اقدس نے فرمایا :-
یہ سچ ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ عقل بالکل نکمی شئے ہے اس کی مثال ایسی ہے کہجیسے روٹی کے ساتھ سالن کی۔اس کے سہارے انسان کھانا خوب کھا لیت اہے۔ایسے ہی عقل ہے کہ اس سے (ذرا معرفت خدا )میں مزا آجاتا ہے ورنہ یوں (خالی) عقل اس میدان میں بڑی نکمی ہے۔خدا کی معرفت دوسرے حواس سے ہے کہ اس میں یہ عقل کوئی کام نہیں کرتی۔نہ تسلی دیتی ہے ایک