نہ۔(مسجد کی) چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جا کر آپ بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے اور ضروری بات کر سکتے ہیں۔ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے۔اور یوں تو ہر ایک کام (مومن کا) عبادت ہی ہوتا ہے۔ تلوار کا استعمال صرف دفاع کی خاطر تھا پھر جہاد کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ :- اب تلوار سے کام لینا تو اسلام پر تلوار مارنا ہے اب تو دلوں کو فتح کرنے کا وقت ہے اور یہ بات جبر سے نہین ہو سکتی۔یہ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تلوار اٹھائی بالکل غلط ہے تیرہ برس تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام صبر کرتے رہے پھر باوجود اس کے کہ دشمنوں کا تعاقب کرتے تھے مگر صلح کے خواستگار ہوتے تھے کہ کسی طرح جنگ نہ ہو ارو جو مشرک قومیں صلح اور امن کی خواستگار ہوتیں ان کو امن دیا جاتا اور صلح کی جاتی۔اسلام نے بڑے بڑے پیچوں سے اپنے آپ کو جنگ سے بچانا چاہا ہے جنگ کی بنیاد کو خود خدا تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ چونکہ یہ لوگ بہت مظلوم ہیں اور ان کو ہر طرح دکھ دیا گیا ہے اس لئے اب اﷲ تعالیٰ اجازت دیتا ہے کہ یہ بھی ان کے مقابلہ میں لڑیں۔ورنہ اگر تعصب ہوتا تو یہ حکم پہنچتا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ دین کی اشاعت کے واسطے جنگ کریں لیکن ادھر حکم دیا کہ لا اکراہ فی الدین (البقرہ : ۲۵۷) یعنی دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے اور ادھر جب غایت درجہ کی سختی اور ظلم مسلمانوں پر ہوئے تو پھر مقابلہ کا حکم دیا۔ کمالات مجاہدہ سے حاصل ہوتے ہیں نہ کسی کے خون سے دین اسلام ایسا دین ہے کہ اگر خد اہمیں عمر اور فرصت دے تو چند ایام میں ان لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ کیسا میٹھا اور بہترین دین ہے۔کمالات تو انسان کو مجاہدات سے حاصل ہوتے ہیں مگر جنکو سہل نسخہ مسیح کے خون کا مل گیا وہ کیوں مجاہدات کریں گے۔اگر مسیح کے خون سے کامیابی ہے تو پھر انکے لڑکے امتحان پاس کرنے کے واسطے کیوں مدرسوں میں محنتیں اور کوششیں کرتے ہیں چاہئے کہ وہ صرف مسیح کے خون پر بھروسہ رکھیں اور اسی سے کامیاب ہوویں اور کوئی محنت نہ کریں اور مسلمانوں کے بچے محنتیں کر کر کے اور ٹکریں مارمار کر پاس ہوں۔اصل بات یہ ہے لیس للانسان الا ماسعی (النجم :۴۰) اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان جب انے نفس کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے فسق و فجودر وغیرہ معلوم ہوتے ہیں۔آخر وہ یقین کی حالت