کچھ ذکر کیا جس پر حضور نے ذیل کی تقریر فرمائی۔
ہماری جماعت کو واجب ہے کہ اب تقویٰ سے کام لے اور اولیاء بننے کی کوشش کرے۔اس وقت زمینی اسباب کچھ کام نہ آوے گا نہ منصوبہ اور حجت بازی کام آئے گی۔دنیا سے کیا دل لگانا ہے اور اس پر کیا بھروسہ کرنا ہے یہ ہی امر غنیمت ہے کہ خد اتعالیٰ سے صلح کی جائے اور اس کا یہی وقت ہے۔ان کو یہی فائدہ اٹھانا چاہئے کہ خد اسے اسی کے ذریعہ سے صلح کر لیں۔بہت مرضیں ایسی ہوتی ہیں کہ دلالہ کا کام کرتی ہیں اور انسان کو خد اسے ملا دیتی ہیں۔خاص ہماری جماعت کو اس وقت وہ تبدیلی یک مرتبہ ہی کرنی چاہئے جو کہ اس نے دس برس میں کرنی تھی اور کوئی جگہ نہیں ہے جہاں ان کو پناہ مل سکتی ہے اگر وہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کر کے دعائیں کریں تو ان کو بشارتیں بھی ہو جائیں گی۔صحابہؓ پر جیسے سکینت اتری تھی ویسے ان پر اترے گی صحابہؓ کو انجام تو معلوم نہ ہوتا تھا کہ کیا ہوگا مگر دل میں یہ تسلی ہو جاتی تھی کہ خد اتعالیٰ ہمیں ضائع نہ کرے گا۔
دراصل سکینت اسی تسلی کا نام ہے۔جیسے میں اگر طاعون زدہ ہو جائوں اور گلے تک میری جان آجائے تو مجھے ہرگز یہ وہم نہیں ہوگا کہ میں ضائع ہو جائوں گا اس کی کیا وجہ ہے؟صرف وہی تعلق جو میرا خدا کے ساتھ ہے وہ بہت قوی ہے انسان کے لئے ٹھیک ہونے کا یہ مفت کا موقع ہے راتوں کو جاگو۔دعائیں کرو۔آرام کرو (لیکن) جو کسل ارو سستی کرتاہے وہ اپنے گھر والوں اور اولاد پر ظلم کرتا ہے کیونکہ وہ تو مثل جڑھ کے ہے اور اہل و عیال اس کی شاخیں ہیں۔تھوڑے ابتلا کا ہونا ضروری ہے۔جیسے لکھا ہے
اخسب الناس ان یتر کو اانیقولو اامنا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
ابتلائوں کی غرض
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک طرف تو مکہ میں فتح کی خبریں دی جاتی تھیں اور ایک طرف ان کو جان کی بھی خیر نظر نہ آتی تھی اگر نبوت کا دل نہ ہوتا تو خدا جانے کیا ہوتا۔یہ اسی دل کا حوصلہ تھا۔بعض ابتلا صرف تبدیلی کے واسطے ہوتے ہیں۔عملی نمونے ایسے اعلی درجے کے ہوں کہ ان سے تبدیلیاں ہوں اور ایسی تبدیلی ہو کہ خود انسان محسوس کرے کہاب میں وہ نہیں ہوں جو کہ پہلے تھا بلکہ میں ایک اور انسان ہوں۔اس وقت خدا تعالیٰ کو راضی کرو حتیٰ کہ تم کو بشارتیں ہوں۔کل کلھتے ہوئے ایک پرانا الہام نظر پڑا
ایام غضب اﷲ غضبت غضبا شدیدا ننجی اھل السعادۃ
یہاں اہل سعادت سے مراد وہ شخ ہے جو عملی طور پر صدق دکھلاتا ہے خالی زبان تک ایمان کا ہونا کوئی فائدہ نہیں دیتا جیسے صحابہؓ نے صدق دکھلایا کہ وہ ہتھیلی پر جانیں