حضرت اقدس نے فرمایا کہ :- حقیقی لذات خدا میں ہیں خدا ہی کی تلاش کرو۔حقیقی لذت خدا ہی میں ہے۔جو لذات اس دنیا سے لے جاوے گا وہی اس کے ساتھ رہیں گے۔ایک دہریہ جب مرے گا تو اسے یہی خیال ہو گا کہ میں وہیں ہوں اور صرف جسم جدا ہوا ہے اس کو حسرت ہی حسرت رہے گی۔جسم کے اندھے اچھے ہیں اور قابل رحم ہیں بہ نسبت اس کے کہ دل کے اندھے ہوں۔سید احمد خان نے تفریط کی راہ لی۔اور ان (وہابیوں) نے افراط کی طرح طرح کی بدنماباتیں پیش کیں۔انسان ان کو کہاں تک قبول کرتا۔کوئی راہ تسلی اور سکینت کی نہ تھی۔کہ انسان مانتا۔ دین کا سارا حصہ ایسا نہیں ہوتا کہ انسان اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ایک حصہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدو خدا سمجھادے۔پھر جو سمجھنے والے ہوتے ہیں خد اتعالیٰ آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں بٹھاتا جاتا ہے۔انسان کو پوری سعادت تک پہنچانے کے واسطے خدا تعالیٰ نے اور حواس رکھے ہیں۔اگر وہ نہ ہوتے تو پھر دین کو انسان سمجھ نہ سکتا اور اس وقت میں حقیقی طور پر انسان خدا پر ایمان لاتا ہے۔خدا پر ایمان اس کا ہے جسے خد انے ہی ایمان دیا ہو برہمو کی طرح زمین اور آسمان کو دیکھ کر پھر خد اکی ضرورت کو ماننا تو گویا اپنی طرف سے ایک خد اتجویز کرنا ہے اور اس طرح سے گویا خود انسان کا احسان خدا پر ہے کہ اس نے خدا کا پتہ لگایا ۔اصل میں اس روز سے انسان کو سچی زندگی حاصل ہوتی ہے جس دن سے وہ خدا پر احسان نہیں رکھتا بلکہ خدا کا اپنے اوپر احسان مانتا ہے کہ اس نے خود اپنے وجود سے اسے خبر دی اور اسی دن سے سفلی زندگی سے انسان کو نجات حاصل ہوتی ہے جس دن خدا کہے کہ میں غالب ہوں اور اس دن سے وہ ترک گناہ پر قادر ہوگا۔یہی وہ سلسلہ ہے جس سے انسان کو کامل یقین خدا پر حاصل ہوتا ہے مگر ؎ ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشذہ دنیا میں بھی ہر ایک شخص انعام و اکرام کے قابل نہیں ہوتا۔اسی طرح خدا تعالیٰ کے انعام و اکرام بھی خواص پر ہوتے ہیں۔ ایک چینی قیافہ شناس کی گواہی عرب صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک چینی آدمی کے روبرو میں نے آپ کی تصویر کو