کروں۔مگر ان دونوں سے تو میں اچھا ہی ہوں۔اتنے میں زور سے ہوا چلی اور دریا میں طوفان آیا۔ایک کشتی آرہی تھی وہ غرق ہو گئی وہ مرد جو کہ عورت کے ساتھ روٹی کھا رہا تھا اٹھا اور غوطہ لگا کر چھ آدمیوں کو نکال لایا اور ان کی جان بچ گئی پھر اس نے اس بزرگ کو مخاطب کر کے کہا کہ تم اپنے آپ کو مجھ سے اچھا خیال کرتے ہو۔میں نے تو چھ کی جان بچائی ہے اب ایک باقی ہے اسے تم نکالو۔یہ سن کر وہ بہت حیران ہوا اور اس سے پو چھا کہ تم نے یہ میرا ضمیر کیسے پڑ ھ لیا اور یہ معاملہ کیا ہے؟ تب اس جواب نے بتلایا کہ اس بوتل میں اسی دریا کا پانی ہے شراب نہیں ہے اور یہ عورت میری ماں ہے اور میں ایک ہی اس کی اولاد ہوں۔قویٰ اس کے بڑے مضبوط ہیں اس لئے جوان نظر آتی ہے۔خد انے مجھے مامور کیا تھا کہ میں اسی طرح کروں تا کہ تجھے سبق حاصل ہو۔ پھر فرمایا کہ :- خضر کا قصہ بھی اسی بناء پر معلوم ہوتا ہے سوء ظن جلدی سے کرنا اچھا نہیں ہوتا۔تصرف فی العباد ایک نازک امر ہے اس نے بہت سی قوموں کو تباہ کر دیا کہ انہوں نے انبیاء اور ان کے اہل بیت پر بدظنیاں کیں۔؎ٰ ۸؍دسمبر ۱۹۰۲ء؁ بروز دوشنبہ ایک رئویا عصرکی نماز سے قبل حضور ؑ نے ایک رئویا سنائی فرمایا میں دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر وضو کرنے لگا تو معلوم ہوا کہ وہ زمین پولی ہے اور اس کے نیچے ایک غار سی چلی جاتی ہے میں نے اس میں پائوں رکھا تو دھنس گیا اور خوب یاد ہے کہ پھر میں نیچے ہی نیچے چلا گیا۔پھر ایک جست کر کے میں اوپر آگیا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ہوا میں تیررہا ہوں اور ایک گڑھا ہے مثل دائرے کے گول اور اس قدر بڑا جیسے یہاں سے نواب صاحب کا گھر۔اور میں اس پر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر تیر رہا ہوں سید محمد احسن صاحب کنارہ پر تھے۔میں نے ان کو بلا کر کہا کہ دیکھ لیجیے کہ عیسیٰ ؑتو پانی پر چلتے تھے اور میں ہوا پر تیر رہا ہوں اور میرے خدا کا فضل ان سے بڑھ کر مجھ پر ہے۔حامد علی میرے ساتھ ہے اور اس گڑھے پر ہم نے کئی پھیرے کئے۔نہ ہاتھ نہ پائوں ہلانے پڑتے ہیں اور بڑی آسانی سے ادھر ادھر تیر رہے ہیں ایک