پیغمبر خدا (ﷺ) سے گناہ سرزد ہوئے ہوں۔ اس کے جواب میں حضرت اقدس نے فرمایا کہ :- اگر استغفار کے یہ معنے ہیں کہ گذشتہ گناہوں سے معافی ہو تو پھر بتلائیں کہ آئندہ گناہوں سے محفوظ رہنے کے لئے کون سا لفظ ہے۔گناہ سے حفاظت یعنی عصمت تو انسان کو استغفار سے ملتی ہے۔کہ انسان خداتعالیٰ سے چاہے کہ ان قویٰ کا ظہور اور بروز ہی نہ ہو۔جو معاصی کی طرف کھینچتے ہیں۔کیونکہ جیسے انسان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ گذشتہ گناہ اس کے بخشے جائیں اسی طرح اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ آئندہ اس کے قوی سے گناہ کا ظہور و بروز نہ ہو۔یہ مسئلہ بھی قابل دعا کے ہے۔ورنہ یہ کیا بات ہے کہ جب گناہ میں مبتلا ہو تو اس وقت تو دعا کرے اور آئندہ گناہوں سے محفوظ رہنے کی دعا نہ کرے۔اگر انجیل میں یہ دعا نہیں ہے تو پھر وہ کتا ب ناقص ہے۔انجیل میں یہ لکھا ہے کہ مانگو تو دیا جائے گا۔پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے استغفار مانگا آپ کو دیا گیا۔مسیح نے نہ مانگا ان کو نہ دیا گیا۔غرضیکہ طبعی تقسیم قرآن مجید نے کی ہے کہ گناہ سے حفاظت کے ہر ایک پہلو کو دیکھ کر استغفار کا لفظ رکھا ہے کیونکہ انسان دونو راہ کا محتاج ہے کبھی گناہ کی مؓافی کا اور کبھی اس امر کا کہ وہ قویٰ ظہور وبروز نہ کریں۔ورنہ یہ کب ممکن ہے کہ قویٰ خدا تعالیٰ کی حفاظت کے بغیر خودبخود بچے رہیں وہ کتاب کامل ہے عقل اور ضرورت خود دونو قسم کی دعا کا تقاضا کرتی ہے۔ پھر دیکھو کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی کے ہاتھ پر توبہ بھی نہیں کی کہ آپ کا گنہگار ہونا ثابت ہو۔مگر مسیح نے تو یحییٰ کے ہاتھ پر گناہوں سے توبہ کی۔ان سے تو یحییٰ ہی اچھا رہا جس نے کسی کی بیعت نہ کی۔اب بتلائو کس کا گنہگار ہونا ثابت ہے۔اگر مسیح گناہ سے صاف تھا تو اس نے غوطہ کیوں لگایا اور پھر روح القدس کا کبوتر ابتدا ہی سے کیوں نہ نازل ہوا؟ پھر استغفار کے معانی پر حضرت اقدس اور آپ کے برگزیدہ احباب وہ آیات قرآنی تلاش کر کے سناتے رہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ استغفار کی دعا آئندہ خطائوں سے حفاظت کے لئے ہے اور پھر تلاش کرتے کرتے انجیل سے بھی ایسی آیات نکل آئیں جس میں مسیح ؑ نے آئندہ گناہ سے بچنے کے لئے دعا مانگی ہوئی ہے۔؎ٰ