ایک دھن جب لگ جائے تو خواہ والدین کتنا روکیں منع کریں مگر وہ کسی کی نہیں سنتے اور اس دھن کی خوسی میں تکالیف کا بھی خیال نہیں ہوتا۔ایسا ہی اس مومن عارف کامل کا حال ہوتا ہے کہ اسے اس بات کا خیال بھی نہیں ہوتا کہ اجر ملے گا یا نہیں ۔یہ مقام آخر ی مقام ہے جہاں سلوک کا سلسلہ ختم ہوت اہے اور اس کے سوا چارہ نہیں ۔اس حالت میں اس کا جوش کسی سہارے پر نہیں ہوتا۔کیونکہ جب تک انسان کسی سہارے سے کام کرتا ہے تو ممکن ہے شیطان اس میں کسی وقت دخل دیوے۔مگر یہاں ذاتی محبت کے مقام میں سہارا نہیں ہوتا جیسے ماں اور بچے کے جو تعلقات ذاتی محبت کے ہیں ان میں انسان تفرقہ نہیں ڈال سکتا۔ماں کی فطرتی محبت ایک دوسرے سے ملاتی ہے مثل مشہور ہے ’’ماں مارے اور بچہ ماں ماں پکارے‘‘اسی طرح اہل اﷲ خدا کی مار کھا کر کہاں جاسکتے ہیں۔بلکہ مار پڑے تو وہ ایک قدم اور بڑھاتے ہیں دوسرے تعلقات میں خدا کی محبت کا جلال زور کے ساتھ نازل نہیں ہوتا جیسے انسان کسی کو اپنا نوکر سمجھتا ہے اور خیال ہوتا ہے کہ یہ نوکری اسی لئے کرتا ہے کہ اس کی اجرت ملے تو اسکی طرف محبت کامل سے التفات نہیں ہوتا اور وہ ایک نوکر شمار ہوتا ہے۔مگر جب کوئی شخص خدامت کرتا ہے اور آقا کو معلوم ہو کر یہ نوکری کی خواہش سے نہیں کرتا تو آخر کار بیٹوں میں شمار ہوتا ہے۔
خدا بڑا خزانہ ہے۔خدا بڑی دولت ہے۔
استغفار کی حقیقت
غفلت غیر معلوم اسباب سے ہے۔بعض وقت انسان نہیں جانتا اور ایک دفعہ ہی زنگ اور تیرگی اس کے قلب پر آجاتی ہے۔اس لئے استغفار ہے۔اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ زنگ اور تیرگی نہ آوے۔عیسائی لوگ اپنی بیوقوفی سے اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے سابقہ گناہوں کا ثبوت ملتا ہے۔اصل معنے اس کے یہ ہیں کہ گناہ صادر ہی نہ ہوں ورنہ اگر استغفار سابقہ صادر شدہ گناہوں کی بخشش کے معنے رکھتا ہے تو وہ بتلاویں کہ آئندہ گناہوں کے نہ صادر ہونے کے معنوں میں کونسا لفظ ہے۔غفر اور کفر کے ایک ہی معنے ہیں۔تمام انبیاء اس کے محتاج تھے جتنا کوئی استغفار کرتا ہے اتا ہی معصوم ہوتا ہے۔اصل معنے یہ ہیں کہ خد انے اسے بچایا معصوم کے معنے مستغفر کے ہیں۔