دنیا کی جنت ہے جیسے قرآن مجید میں ہے۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتن (الرحمن : ۴۷)
پھر آگے ہے
نحن اولیؤکم فی الحیوۃ الدنیا وفی الاخرۃ (حم السجدۃ : ۳۲)
دنیااور آخرت میں ہم تمہارے ولی اور متکفل ہیں۔
مومن کی دنیوی زندگی
بعض لوگ
ولمن خاف مقام ربہ جنتن
کی آیت کے معارض ایک حدیث پیش کیا کرتے ہیں
الدنیا سجن للمومن
اس کے اصل معنے یہ ہیں کہ مومن کئی قسم کے ہوتے ہیں
فمن ھم ظالم لنفسہ ومنھم مقتصد ومنھم سابق بالخیرت (فاطر : ۳۳)
مقتصد سے مراد نفس لوامہ والے ہیں اور یہ (دنیا کی) تکلیف نفس لوامہ تک ہی ہوتی ہیں کہ اس میں انسان کے ساتھ کشاکش نفس امارہ کی ہوتی ہے وہ کہتا ہے کہ راحت اور آرام کی یہ بات اختیار کر اور لوامہ وہ نہیں کرتا۔اس وقت انسان مجاہدہ کرتا ہے اور نفس امارہ کو زیر کرتا ہے اور اس طرح جنگ ہوتی رہتی ہے حتیٰ کہ امارہ شکست کھا جاتا ہے اور پھر نفس مطمنہ رہ جاتا ہے۔
یا ایتھاالنفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ (الفجر : ۲۸‘۲۹)
یعنی تو میری جنت میں داخل ہو جا اور اسی وقت ہو جا اور مومن کی جنت خود خدا ہے۔یعنی جب وہ خد اکے بندوں میں داخل ہوا تو خد اتو انہیں میں ہے۔اور وہ اس کے عباد میں آگیا تو اب اس حالت میں وہ سجن کہاں رہا؟ ایک مرتبہ ہوتا ہے کہ اس وقت تک وہ تکالیف میں ہوتا ہے جیسے جب کنواں کھودا جائے تو اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ پانی نکل آئے مطمنہ ہونا اصل میں پانی نکالنا ہے۔جب پانی نکل آیا۔اب کھودنے کی ضرورت نہیں ہے تو اس آیت میں ظالم سے مراد نفس امارہ والے اور مقتصد سے مراد نفس لوامہ والے اور سابق بالخیرات سے مراد نفس مطمنہ والے ہیں۔
پوری تبدیلی زندگی میں جب تک نہ آوے تب تک جنگ رہتی ہے اور لوامہ تک یہ جنگ ہے جب یہ ختم ہوئی تو پھر دارالنعیم میں آجاتا ہے۔اس وقت اس کا ارادہ خدا کا ارادہ اور اس کی مرضی خد اکی مرضی ہوتی ہے اور وہ ان باتوں لذت اتھاتا ہے جن سے خدا خوش ہوتا ہے۔عارف جس کی خد اسے زاتی محبت ہو جائے تو اگر خد ااسے بتلا بھی دے کہ تو دوزخی ہے خواہ عبادت کر خواہ نہ کر تو اس کی خوشی اسی میں ہو گی کہ خواہ دوزخ میں جائوں مگر میں ان عبادات سے رک نہیں سکتا جیسے افیونی کو جب افیون کی عادت ہو جاتی ہے تو اسے کیسی ہی تکالیف ہوں اور خواہ وہ گھلتا ہی جائے مگر افیونکو نہیں چھوڑ تا۔جس طرح دنیا میں نوجوانوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کو