طرخ زانی زنا کرتا ہے اگر صبر کرے تو خد اتعالیٰ اس کی خواہش کو اور راہ سے پوری کردے جس میں اس کی رضا حاصل ہو۔حدیث میں ہے کہ کوئی ثور چوری نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہین ہوتا اور کوئی زانی زنا نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا۔جیسے بکری کے سر پر شیر کھڑا ہو تو وہ گھاس بھی نہیں کھا سکتی تو بکری جتنا ایمان بھی لوگوں کا نہیں ہے اصل جڑ اور مقصور تقویٰ ہے جسے وہ عطا ہو تو سب کچھ پاسکتا ہے بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ انسان صغائر اور کبائر سے بچ سکے انسانی حکومتوں کے احکام گناہوں سے نہیں بچاسکتے۔حکام ساتھ ساتھ تو نہیں پھرتے کہ ان کو خوف رہے۔انسان اپنے آپ کو اکیلا خیال کرکے گناہ کرتا ہے ورنہ وہ کبھی نہ کرے اور جب وہ اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا ہے اس وقت وہ دہریہ ہوتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے وہ مجھے دیکھتا ہے ورنہ اگر وہ یہ سمجھتا تو کبھی گناہ نہ کرتا تقویٰ سے سب شئے ہے قرآن نے ابتدا اسی سے کی ہے
ایاک نعبد وایا ک نستعین (الفاتحہ : ۵)
سے مراد بھی تقویٰ ہے۔کہ انسان اگر چہ عمل کرتا ہے مگر خوھ سے جرأت نہیں کرتا کہ اسے اپنی طرف منسوب کرے اور اسے خدا کی استعانت سے خیال کرتا ہے اور پھر اسی سے آئندہ کے لئے استعانت طلب کرتا ہے۔
تقویٰ کے ثمرات
پھر دوسری سورت بھی
ھدی للمتقین
سے شروع ہوتی ہے۔نماز‘روزہ‘زکوٰۃ وغیرہ سب اسی وقت قبول ہوتا ہے جب انسان متقی ہو۔اس وقت خدا تمام داعی گناہ کے اٹھا دیتا ہے۔بیوی کی ضرورت ہو تو بیوی دیتا ہے۔دوا کی ضرورت ہو تو دوا دیتا ہے۔جس شئے کی حاجت ہو وہ دیتا ہے اور ایسے مقام سے روزی دیتا ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی۔
ایک اور آیت قرآن شریف میں ہے
ان الذین قالو اربنا اﷲ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملئکۃ الا تخافو اولا تحزنوا (حم السجدۃ:۳۱)
اس سے بھی مراد متقی ہیں ثم استقامو ا یعنی ان پر زلزلے آئے۔ابتلا ء آئے۔ آندھیاں چلیں مگر ایک عہد جو اس سے کر چکے اس سے نہ پھرے۔پھر آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انہوں نے ایسا کیا اور صدق اور وفا دکھلائی۔تو اس کا اجر یہ ملا
تتنزل علیھم الملئکۃ
یعنی ان پر فرشتے اترے اور کہا کہ خوف اور حزن مت کرو تمہارا خدا متولّی ہے۔
وابشرو ابالجنۃ التی کنتم توعدون (حم السجدۃ : ۳۲)
اور بشارت دی کہ تم خوش ہو اس جنت سے۔اور اس جنت سے یہاں مراد