ہے تو گویا مامور بھی اپنا کام کر چکتا ہے اور وہ فتح یاب ہو کر اٹھایا جاتا ہے۔ دیکھو جب تک کفار مکہ کی مخالفت کا زور شور رہا اس وقت تک بڑے بڑے اعجاز ظاہر ہوئے لیکن جب اذاجاء نصر اﷲ والفتح (النصر : ۲) کا وقت آیا اور یہ سورۃ اتری تو گویا آپ کے انتقال کا وقت قریب آگیا۔فتح مکہ کیا تھی آپ کے انتقال کا ایک مکدمہ تھی۔غرض ان مخالفوں ہی میں سے نکل کر آتی ہے اور اگر یہ مخالفت نہ ہوتی تو اس زور شور سے تحریک اور تبلیغ نہ ہوتی۔ ۲؎ وجودی فرقہ کی حالت فرمایا :- ایک ذرہ حرکت اور سکون نہیں کر سکتا جب تک آسمان پر اول حرکت نہ ہو۔ذلت وجودی کی اس سے ہے کہ وہ اس مقام پر لغزش کھا جاتا ہے۔طریق تادت یہ تھا کہ وہ اس مقام پر ٹھہر جاتے اور جو فرق عبد اور معبود کا ہے اس سے ئگے نہ برھتے۔مگر وہ ایسے طریق پر ہیں کہ عملی حالت میں رہے جاتے ہیں نماز روزہ سے آخر کار فارغ ہو بیٹھتے ہیں۔بھنگ وغیرہ مسکرات استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔دہریت میں اور ان میں انیس بیس کا فرق ہے اور ان کی بیباکی دلالت کرتی ہے کہ اس فرقہ میں خیر نہیں ہے عیسائیوں نے ایک کو خدا بنا کر آگ لگائی اور انہوں نے ہر ایک وجود کو خد ابنایا۔نہدوجوں پر بھی ان کا بد اثر پہنچا ہے حرمت کی پروا نہیں ہے۔اس لئے مناہی وغیرہ سب جائز رکھتے ہیں۔صورت پرست ہوتے ہیں نامحرموں پر بدنظری کرتے ہیں اس زمانہ کا بگاڑ سخت ہے۔ اصل تقویٰ دنیا سے اُٹھ گیا یہ فرمایا :- اصل تقویٰ جس سے انسان دھویا جاتا ہے اور صاف ہوتا ہے اور جس کے لئے انبیاء آتے ہیں وہ دنیا سے اٹھ گیا ہے کوئی ہو گا جو قد افلح من زکھا (الشمس : ۱۰) کا مصداق ہو گا۔پاکیزگی اور طہارت عمدہ شئے ہے انسان پاک اور مطہر ہو تو فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں۔لوگوں میں اس کی قدر نہیں ہے ورنہ ان کی لذات کی ہر ایک شئے حلال ذرائع سے ان کو ملے۔چور چوری کرتا ہے کہ مال ملے لیکن اگر وہ صبر کرے تو خد اتعالیٰ اسے اور سے مالدار کردے۔اسی