حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا غصہ
حضرت عمرؓ س یکسی نے پوچھا کہ آپ بڑے غصہ والے ہوتے تھے اب غصہ مسلمان ہونے سے دور ہو گیا فرمایا-دور تو نہیں ہوا مقتصد ہو گیا ہے اور اب اپنے ٹھکانے پر چلتا ہے۔؎ٰ
۳۰؍نومبر ۱۹۰۲ء
دربار شام
برطانیہ اور کابل
فرمایا :-
گورنمنٹ انگلشیہ نے بڑی آزادی دے رکھی ہے ارو ہر قسم کا امن ہے مگر کابل میں تو لوگ ایک طرح سے اسیر اور مقید ہیں۔وہ باہر جانا چاہیں تو ان پر کئی قسم کی پا بندیاں ہیں اور بے ہودہ نگرانیاں کی جاتی ہیں خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو اسی لئے اس مبارک سلطنت کے ماتحت رکھا۔
فرمایا :-
جو لوگ حق کو چھپاتے ہیں وہ مرد نہیں بلکہ عورتیں ہیں۔
فرمایا :-
جو خدا کی پروا نہیں کرتا وہ برباد ہو جاتا ہے۔یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے انکار کیا یہ آثار اچھے نہیں۔اﷲ تعالیٰ بعض اوقات انصاف پسند کافر کو ظالم کلمہ گوکے مقابلہ میں پسند کرتا ہے اس سلسلہ کے لئے گورنمنٹ انگلشیہ کے سوا دوسری حکومتیں سخت مضر ہیں۔ان میں امن نہیں ہے۔ ؎ٰ
یکم دسمبر ۱۹۰۲ء بروز دوشنبہ
(بوقت سیر)
حسب معمول سیر کے لئے تشریف لائے تو آتے ہی فرمایا کہ
آج ہی کے دن سیر ہے کل سے انشاء اﷲ روزہ شروع ہوگا۔تو چار پانچ دن تک سیر بند رہے گی تا کہ طبیعت روزے کی عادی ہو جائے اور تکلیف محسوس نہ ہو۔