سعادت کے نشان
بٹالہ میں طاعون کا ذکر سن کر فرمایا کہ
یہ سر زمین بہت گندی ہے خوف ہے کہیں تباہ نہ ہو جائے۔اﷲ کا رحم ہے اس شخص پر جو امن کی حالت میں اسی طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی مصیبت کے وارد ہونے پر ڈرتا ہے جو امن کے وقت خدا تعالیٰ کو نہیں بھلاتا۔خدا تعالیٰ اسے مصیبت کے وقت نہیں بھلاتا اور جو امن کے زمانہ کو عیش میں بسر کرتا ہے۔اور مصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں جب عذاب الٰہی کا نزول ہوتا ہے تو توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے پس کیا ہی سعید وہ ہے جو عذاب الٰہی کے نزول سے پیشتر دعا میں مصروف رہتا ہے صدقات دیتا ہے اور امر الٰہی کی تعظیم اور خلق اﷲ پر شفقت کرتا ہے۔اپنے اعمال کو سنوار کر بجالاتا ہے یہی سعادت کے نشان ہیں درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح سعید اور شقی کی شناخت بھی آسان ہوتی ہے۔
خدا تعالیٰ جو علاج فرماتا ہے وہ حتمی ہوتا ہے
فرمایا :-
اصل میں انسان جوں جوں اپنے ایمان کو کامل کرتا ہے اور یقین میں پکا ہوتا جاتا ہے توں توں اﷲ تعالیٰ اس کے واسطے خود علاج کرتا ہے۔اس کو ضرورت نہیں رہتی کہ دوائیں تلاش کرتا پھرے وہ خدا تعالیٰ کی دوائیں کھاتا ہے اور خدا تعالیٰ خود اس کا علاج کرتا ہے بھلا کوئی دعویٰ سے کہہ سکتا ہے کہ فلاں دوا سے فلاں مریض ضرور ہی شفا پا جائے گا ہرگز نہیں ۔بلکہ بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ دوا الٹا ہلاکت کا موجب ہو جاتی ہے۔غرض حتمی علاج نہیں ہو سکتا ہاں خدا تعالیٰ جو علاج فرماتا ہے وہ حتمی ہوتا ہے اس سے نقصان نہین ہوتا۔مگر یہ بات ذرا مشکل ہے کامل ایمان کو چاہتی ہے اور یقین کے پہاڑ سے پیدا ہوتی ہے ایسے لوگوں کا اﷲ تعالیٰ خدو معالج ہوتا ہے مجھے یاد ہے ایک دفعہ دانت میں سخت درد تھا میں نے کسی سے دریافت کیا کہ اس کا کیا علاج ہے اس نے کہا کہ موٹا علاج مشہور ہے۔علاجِ دنداں اخراجِ دنداں۔اس کا یہ فقرہ میرے دل پر بہت گراں گذرا کیونکہ دانت بھی ایک نعمت الٰہی ہے اسے نکال دینا ایک نعمت سے محروم ہونا ہے اسی فکر میں تھا کہ غنودگی آئی اور زبان پر جاری ہوا
واذمرضت فھویشفین
اس کے ساتھ