لفظ اوی کی حقیقت فرمایا :- قرآنی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اوی کا لفظ یہ چاہتا ہے کہ اول کوئی مصیبت واقع ہو۔اسی طرح الہام انہ اوی القریۃ چاہتا ہے کہ ابتداء میں خوفناک صورتیں ہوں۔اصحاب کہف کی نسبت بھی یہی فا و االی الکھف (الکہف : ۱۷) اور واوینھما الی ربوۃ (المومنون : ۵۱) ان تمام مقامات سے یہی مطلب ہے کہ قبل اس کے کہ خدا تعالیٰ آرام دے مصیبت اور خوف کا نظارہ پیدا ہوگا اور لو لا الاکرام لھلک المقام بھی اسی کے ساتھ ملتا ہے۔ اوائل عمر کی بیعت ایک لڑکے کی بیعت کے ذکر پر فرمایا کہ اوائل عمر کے لوگوں کی بیعت میں مجھے تردد ہوتا ہے جب تک انسان کی عمر چالیس برس کی نہ ہو تب تک ٹھیک انسان نہیں ہوتا۔اوائل عمر میں تلوّن ضرور آتا ہے میرا ارادہ نہیں ہوتا کہ ایسی حالت میں بیعت لوں مگر بدیں خیال کہ دل آزارگی نہ ہو بیعت لے لیتا ہوں۔انسان جب چالیس برس کا ہوتا ہے تو اسے موت کا نظارہ یاد آجاتا ہے اور جس کے قریب ابھی موت کا خوف ہی نہیں اس کا کیا اعتبار۔ مسلمان بادشاہوں نے عربی زبان کی ترویج نہ کرکے معصیت کی اس کے بعد یہ ذکر ہوتا رہا کہ آج تک بہت تھوڑے ایسے گذرے ہیں جنہوں نے اس امر کو محسوس کیا اور حسرت کی کہ کیوں ہندوستان کے شاہان اسلام نے اس ملک میں سوائے عربی کے دوسری زبانوں کو رواج دیا حالانکہ عربی ایک بڑی وسیع زبان تھی جس میں ہر ایک مطلب مکمل طور پر بیان ہو سکتا ہے اگر وہ ایسا کرتے تو یہ اسلام کی ایک بڑی امداد ہوتی مگر نہ معلوم کہ کیوں کسی کو خیال نہ آیا۔اس سے ایک نقص یہ بھی پیدا ہوا کہ ہندوستان کی اسلامی ذریت کو اس وجہ سے کہ ان کو اپنی مذہبی زبان کا علم نہیں ۔قرآن شریف اور دیگر علوم عربیہ سے بہت کم مَسّ ہے۔ حضرت اقدس بھی ان باتوں کی تائید فرماتے رہے اور فرمایا کہ یہ ان سے ایک معصیت ہوئی۔