کچھ غفلت کا حصہ رہ جاتا ہے۔خد ااب چاہتا ہے کہ یہ لوگ سمجھ لیں جس طرح نوحؑ کے زمانہ میں ان کے بیٹے نے کہا تھا کہ میں پہاڑ کی پناہ لے لوں گا اسی سرف یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم طاعون سے بچنے کے لئے ٹیکہ کی پناہ میں آجائیں گے مگر نہیں جانتے کہ سب سے زیادہ ضروری شئے خد اکی ہستی پر یقین ہے بغیر اس یقین کے اعمال میں برکات ہر گز پید انہیں ہوتیں۔
خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ چلو ذرا ہم بھی چلتے چلیں۔اگر لوگ آج ہی توحید پر قائم ہو جائیں تو آج ہی یہ بلا(طاعون) جاتی رہتی ہے خدا تعالیٰ انسان کے اعمال کو دیکھتا ہے کہ وہ توحید پر قائم ہیں کہ نہیں بہت سے عمل تو کل کے برخلاف اور توحید کے برخلاف ہوتے ہیں خواہ وہ کسی طرح سے لاالہ الا اﷲ کہے مگر وہ اس میں جھوٹا ہوتا ہے اور یہی فسق فجور ہوتا تھا مگر خد اکا خوف بیھ دلوں میں ہوتا تھا ایک وقت آتا ہے کہ لوگ
یامسیح الخلق عدوانا
کہیں گے مگر اس وقت وہ سب ناس ہی رہ جائیں گے جیسے
رایت الناس یدخلون فی دین اﷲ افواجا (النصر : ۳)
مگر ایسے وقت پر ان لوگوں کو ایمان چنداں فائدہ نہیں دیتا ۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
قل یوم الفتح لا ینفع الذین کفرو اایمانھم (السجدۃ : ۳۰)
اس سے
طلو ع الشمس من مغربھا
کی حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ توبہ قبول نہ و گی بلکہ یہ مراد ہے کہ خد اتعالیٰ اپنے فضل سے بخشے تو بخشے ان کی توبہ کوئی حقیقت نہ رکھے گی۔یہ امر خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہوگا جیسے فرمایا
الا ماشاء ربک (ہود: ۱۰۹)
مگر مومنوں کے حق میں فرمایا۔
عطاء غیر مجذوذ (ہود : ۱۰۹)
طاعون مامور ہے اور لوگوں کیلئے ایک تازیانہ ہے
فرمایا :-
طاعون بھی مامور ہے اس کا کیا قصور ہے جیسے اگر ایک شخص سپاہی ہو تو خواہ اسے اپنے حقیقی بھائی کے نام وارنٹ ملے اسے اس کو گرفتار ہی کرنا پڑے گا کییونکہ فرض منصبی ہے میں تو خد اتعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ لوگوں کو سیدھا کرنے کا اب وقت آگیا ہے خدا کی رحمت عظیم ہے کہ اپنی طرف سے خود ہی ایک تازیانہ مقرر کر دیا کہ یہ لوگ غافل نہ رہیں۔اب یہ لوگ سالک نہ ہوئے بلکہ مجذوب ہوئے کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود دستگیری کی ہماری جماعت میں ہماری طرف سے نصائح کا سلسلہ تو جاری تھا مگر اس کا اثر کچھ کم ہی ہوتا تھا اب اس نے طاعون کا تازیانہ چالیا کیونکہ طاعون