پس جب تک انسان میں خدا کی معرفت اور گناہوں کے زہر ہونے کا یقین پیدا نہ ہو،کوئی اور طریق خوا کسی کی خودکشی ہو یا قربانی کا خون نجات نہیں دے سکتا اور گناہ کی زندگی پر موت وارد نہیں کر سکتا یقینا یاد رکھو کہ گناہوں کا سیلاب اور نفسانی جذبا کا دریا بجز اس کے رک ہی نہیں سکتا کہ ایک چمکتا ہوا یقین اس کو حاصل ہو کہ خدا ہے اور اس کی تلوار ہے جو ہر ایک نافرمان پر بجلی کی طرح گرتی ہے۔ جب تک یہ پیدا نہ ہو گناہ سے بچ نہیں سکتا اگر کوئی کہے کہ ہم خدا پر ایمان لاتے ہیں اورا س بات پر بھی ایمان لاتے ہیںکہ و ہ نافرمانوں کو سزا دیتا ہے مگر گناہ ہم سے دور نہیں ہوتے۔ میں جواب میں یہی کہوں گا کہ یہ جھوٹ ہے نفس کا مغالطہ ہے سچے ایمان اور سچے یقین اور گناہ میں باہم عداوت سے جہاں سچی معرفت اور چمکتا ہوا یقین خدا پر ہو وہاں ممکن نہیں گناہ رہے۔ انسانی فطرت میں یہ خاصہ موجود ہے کہ سچی معرفت نقصان سے بچا لیتی ہے جیسا کہ سانپ یا شیر یا زہر کی مثال سے بتایا گیا ہے پھر یہ بات کیوں کر درست ہو سکتی ہے کہ ایمان بھی ہو اور گناہ بھی دور نہ ہو۔ میں دیکھتا ہوں کہ ان فری میسنوں میں محض رعب کا سلسلہ ان کے اسرار کے اظہار سے روکتا ہے اور کچھ نہیں۔پھر خدا کی عظمت و جبروت پر ایمان گناہ سے نہیں بچا سکتا ؟بجا سکتا ہے اور اور ضرور بچا سکتا ہے ۔ پس گناہ سے بچنے کے لئے حقیقی راہ خدا کی تجلیات ہیں اورا س آنکھ کو پیدا کرنا شرط ہے جو خدا کی عظمت کو دیکھ لے اورا س یقین کی ضرورت ہے جو گناہ کے زہر پر پیدا ہو۔زمین سے تاریکی پیدا ہوتی ہے اور آسمان اس تاریکی کو دور کرتا ہے اور ایک روشنی عطا کرتا ہے زمینی آنکھ بے نور ہوتی ہے جب تک آسمانی روشنی کا طلوع اور ظہور نہ ہو اس لئے جب تک آسمانی نور جو نشانات کے رنگ میں ملتا ہے کسی دل کو تاریکی سے نجات نہ دے انسان اس پاکیزگی کو کب پا سکتا ہے جو گناہ سے بچنے میں ملتی ہے پس گناہوں سے بچنے کے لئے اس نور کی تلاش کرنی چاہئے جو یقین کی روشنی کے ساتھ آسمان سے اترتا ہے اور ایک ہمت ، قوت عطا کرتا ہے اور تمام قسم کے گردو غبار سے دل کو پاک کرتا ہے اسا وقت انسان گناہ کے زہر ناک اثرکو شناخت کر لیتا اورا س سے دور بھاگتا ہے جب تک یہ حاصل نہیں گناہوں سے بچنا محال ہے یہ طریق ہے جو ہم پیش کرتے ہیں اس پر اگر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے تو بے شک ہر شخص کو اجازت دیتے ہیںکہ وہ ہمارے سامنے اس اعتراض کو پیش کرے تا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ کسی عیسائی کے سامنے اس اصل کو بیان کرے اور پھر اس کا کوئی اعتراض سن کر شرمندہ ہو۔ جو اعتراض اس پر ہو سکتا ہوبے شک کیا جاوے۔‘‘ صادق کا وجود خدا نما وجو د ہوتا ہے فرمایا:’’بے شک یہ بات ہے جو کو میں خود بھی بیان کرنا چاہتا تھا ۔ یہ بات کہ ایسا یقین کیونکر پیدا ہو؟ اس کے لئے اتنا ہی