لیکن ایک زمیندار کو کس قدر مشکلات کا سامنا ہوتا ہے یا ایک تاجر کو اپنے مال کو کس طرح خطرہ میں ڈالنا پڑتا ہے ایسا ہی ایک ملازم قسم قسم کی پابندیوں اور ماتحتیوں کے نیچے آ کر کن مشکلات میں ہے پس تم سہل باتوں سے ڈرو جو پھونک مار کر سب کچھ ہٹا دینا چاہتے ہیں وہ خطرنا ک عیار ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ عیسائیوں کا گناہ کا علاج تو بجز اباحت کے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔عیسائی باش ہر چہ خواہی کن۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ کے اعتقاد کی وجہ سے دہریت کی رگ پیدا ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسان گناہ پر دلیر ہو جاتا ہے اور جس قدر سم الفار کی مہلک تاثیر کی ہیبت اس کو کھانے سے باز رکھتی ہے اس کی قدر بھی خدا کی ہیبت اس کو نافرمانی سے نہیں روکتی۔اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ خدا کی عظمت ، اس کی ہیبت ، جلال اور اقتدار سے بے خبر ہے تب ہی تو نافرمانی اور سرکشی کو ایک معمولی بات سمجھتا ہے اور گناہ پر دلیر ہو جاتا ہیا ور نہیں ڈرتا ادنی درجہ کے حکام اور ان کی چپراسیوں تک کی نافرمانی سے اس کی جان گھٹ جاتی ہے، مگر خدا کی نافرمانی سے اس کے دل پر لرزہ نہیں پڑتا کیونکہ خدا شناسی کی معرفت اسے نہیں ملے گی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ گناہ کا علاج جو ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔سوا اس کے دوسرا علاج نہیں ہے اور وہ یہی ہے کہ خدا کی معرفت لوگوں کو حاصل ہو ۔ تمام سعادت مندیوں کا مدار خدا شناسی پر ہے اور نفسانی جذبات اور شیطانی محرکات سے روکنے والی صرف ایک ہی چیز ہے جو خدا کی معرفت کاملہ کہلاتی ہے جس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ خدا ہے۔ وہ بڑا قادر ہے وہ ذوالعذاب الشدید ہے یہی ایک نسخہ ہے جو انسان کی متمردانہ زندگی پر ایک بھسم کرنیو الی بجلی گراتا ہے پس جب تک انسان آمنت باللہ کی حدود سے نکل کر عرفت اللہ کی منزل پر قدم نہیں رکھتا اس کا گناہوں سے بچنا محال ہے اور یہ بات کہ ہم خدا کی معرفت اور اس کی صفات پریقین لانے سے گناہوں سے کیونکر بچ جائیں گے ایک ایسی صداقت ہے جس کو ہم جھٹلا نہیں سکتے۔ ہمارا روزانہ کا تجربہ اس امر کی دلیل ہے کہ جس سے انسان سے ڈرتا ہے اس کے نزدیک نہیں جاتا مثلاً جب یہ علم ہو کہ سانپ ڈس لیتا ہے اور اس کا ڈسا ہوا ہلاک ہو جاتا ہے تو کون دانش مند ہے جو اس کے منہ میں اپنا ہاتھ دینا تو درکنار کبھی ایسے سوٹے کے نزدیک جانا بھی پسندکرے جس سے کوئی زہریلا سانپ مارا گیا ہو ۔ اسے خیال ہوتا ہے کہ کہیں اس کے زہر کا اثر اس میں باقی نہ ہو اگر کسی کو معلوم ہو جائے کہ فلاں جنگل میں شیر ہے تو ممکن نہیں کہ وہ اس میں سفر کر سکے یا کم ازکم تنہا جا سکے بچوں تک میں یہ مادہ اور شعور موجود ہے کہ جس چیز کے خطرناک ہونے کا ان کو یقین دلایا گیا ہے وہ اس سے ڈرتے ہیں۔