ہوتا ہے کہ ان دونوں میں باہم کوئی رشتہ اور تعلق نہیں مثلاً اگر ایک مریض کسی طبیب کے پاس آوے تو طبیب اس کا علاج کرنے کے بجائے اسے یہ کہدے تو میری کتاب کا جز لکھ دے تیرا علاج یہی ہے تو کون عقلمند اس علاج کو قبول کرے گا۔ پس مسیح کے خون اور گناہ کے علاج میں اگر یہی رشتہ نہیں ہے تو اور کونسا رشتہ ہے، یا یوں کہو کہ ایک شخص کے سر میں درد ہوتا ہو اور دوسرا آدمی اس پر رحم کھا کر اپنے سر پر پتھر مار لے اور اس کے درد سر کا اسے علاج تجویز کر لے۔یہ کیسی ہنسی کی بات ہے پس ہمیں کوئی بتا دے کہ عیسائیوں نے ہمارے سامنے کیا پیش کیا کیا ہے ۔جو کچھ وہ پیش کرتے ہیں وہ تو ایک قابل شرم بناوٹ ہے گناہوں کا علاج کیا؟ یسوع کی خود کشی میں جس گناہوں سے پاک ہونے کے واسطے کوئی حقیقی رشتہ بھی نہیں۔ہم بارہا حیران ہوتے ہیں کہ حصرت مسیح کو یہ سوجھی کیا؟ جو دوسروں کو نجات دلانے کے لئے آپ صلیب اختیار کی اگر وہ اس صلیب کی موت سے ( جو لعنت تک لے جاتی ہے اور عیسائیوں کے قول اور اعتقاد کے موافق کفارے کے لئے لعنتی ہوجانا ضروری ہے کیونکہ وہ گناہوں کی سزا ہے) اپنے آپ کو بچاتے اور کسی معقول طریق پر بنی نوع کو فائدہ پہنچاتے تو وہ اس خود کشی سے بدرجہا بہتر اور مفید ہ ہوتا۔
غرض کفارہ کے ابطال پر یہ زبردست دلیل ہے اور کفارہ میں باہم کوئی رشتہ نہیں۔پھر دوسری دلیل اس کے باطل ہونے پر یہ ہے کہ کفارہ نے اس فطری خواہش کہ گناہوں سے انسان بچ جاوے کہاں تک پورا کیا ہے اس کا جواب صاف ہے کہ کچھ بھی نہیں چونکہ تعلق کوئی نہ تھا اس لئے کفارہ گناہوں کے اس جوش او رسیلاب کو روک نہ سکا اگر کفارہ میں گناہوں سے بچانے کی کوئی تاثیر ہوتی تو ، تو یورپ کے مرد و عورت گناہوں سے ضرور بچے رہتے ہر قسم کے گناہ یورپ کے خواص و عوام میں پائے جاتے ہیں اگر کسی کو شک ہو تو وہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں میں جا کر دیکھ لے کیا ہوتا ہے زنا کی کثرت خوف دلاتی ہے کہ کہیں زنا کے جواز کا ہی فتوی نہ ہو جاوے گو عملی طور پر تو نظر آتا ہے کہ ۔ شراب کا استعمال اس قدر کثرت سے بڑھتا جاتا ہے کہ کچھ روز ہوئے ایک عورت نے کسی ہوٹل میں پینے کو پانی مانگا تو انہوں نے کہا کہ پانی تو برتن دھونے یا نہانے وغیرہ کے کام آتا ہے پینے کے لئے تو شراب ہی ہوتی ہے پس اب غور کر کے دیکھو کہ گناہ کے سیلاب کو روکنے کے واسطے خون مسیح کا بندتو کافی نہیں ہوا بلکہ اپنی رو میں اس نے پہلے بندوں کو بھی توڑ دیا اور پوری آزادی اور اباحت کے قریب پہنچا دیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کفارہ تو بیشک گناہوں سے بچا نہیں سکتا مگر کیا کوئی اور طریق ہے ہے بھی جس سے انسان گناہوں سے بچ جاوے ؟ میں کہتا ہوں کہ ہاںعلاج ہے اور ضرور ہے اور وہ علاج یقینی علاج ہے مگر جیسے سچی باتوں کے ساتھ مشکلات ہوتی ہیں ویسے ہی یہ علاج بھی مشکلات سے خالی نہیں۔ یہ یاد رکھو کہ جھوٹ کے ساتھ مشکلات نہیں ہوتی ہیں، مثلاً ایک کیمیا گر جو یہ کہتا ہے کہ میں ایک دم ایک ہزار کا دو ہزار بنا دیتا ہوں وہ مشکلات اس فعل کے لئے نہیں رکھتا