بیان ہوتا ہے۔یعنی ایسے اسباب مجرم کی سزا کے لئے مہیا کرتا ہے کہ جن اسباب کو وہ اپنے لئے کسی اور غرض سے مہیا کرتا ہے۔پس وہی اسباب جو بہتری کے لئے بناتا ہے۔ہلاکت کا باعث بنتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسیح کو ایسے طرز پر بچایا کہ وہ اسباب جو ان کی ہلاکت کے لئے جمع ہوئے تھے۔ان کی زندگی کا موجب ثابت ہوئے۔اور ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جیسے کفار مکہ کے منصوبوں سے بچا لیا تھا اور اسی طرح پر یہاں بھی اس کا وعدہ ہے۔
اگر کوئی یوں کہے کہ وہاں ہی محفوظ کیوں نہ رکھا۔تو اس کو جواب یہ ہے کہ سنت اللہ یہ نہیں ہے۔بلکہ خدا اپنا علم دکھانا چاہتا ہے،اس لئے وہاں سے نکال لیتا ہے۔
مکر کی حد اس وقت تک ہے جبکہ وہ انسانی تدابیر تک ہو،مگر جب انسانی منصوبوں کے رنگ سے نکل گیا،پھر وہ خارق عادت معجزہ ہوا۔اگر ذرا بھی ایمان کسی میں ہو تو وہ ان امور کو صفائی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے لئے ہجرت نہ ہو۔‘‘؎۱