فرمایا:مخالفین کے ساتھ دشمنی کے ساتھ نہیں پیش آنا چاہیے،بلکہ زیادہ تر دعا سے کام لینا چاہیے اور دیگر وسائل سے کوشش کرنی چاہیے۔1؎
۱۸۹۷ء
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
’’میں ہر گز اپنے آپ کو مولوی نہیںکہتا اور نہ میں راضی ہوں کہ کبھی مجھے کوئی مولوی کہے،بلکہ مجھے تو ایسے لفظ سے ایسا رنج ہوتا ہے،جیسا کہ کسی نے گالی دے دی ۔
فرمایا:لوگ تمہیں دکھ دیں گے اور ہر طرح سے تکلیف پہنچائیں گے،مگر ہماری جماعت کے لوگ جوش نہ دکھائیں،جوش نفس سے دل دکھانے والے الفاظ استعمال نہ کرو۔اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگ پسند نہیں ہوتے۔ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے ‘‘۔۲؎
فرمایا: یہ آسمانی کام ہے اور آسمانی کام رک نہیں سکتا ۔اس معاملہ میں ہماراقدم ایک ذرہ بھی درمیان میں نہیں ۔
فرمایا:لوگوں کی گالیوں سے ہمارا نفس جوش میں نہیں آتا۔
فرمایا:دولت مندوں میں نخوت ہے،مگر آجکل کے علماء میں اس سے بڑھ کر ہے ۔ان کا تکبر ایک دیوار کی طرحان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔میں اس دیوار کو توڑنا چاہتا ہوں ۔جب یہ دیوار ٹوٹ جاوے گی تو وہ انکسار کے ساتھ آویں گے۔
فرمایا:اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔خداتعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ کسی پر ظلم نہ کرو۔نہ تیزی کرو ۔نہ کسی کو حقارت سے دیکھو۔جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہے،تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے۔اگر حرارت کی طرف تمہارا میلان ہو تو پھر اپنے دل کو ٹٹولو کہ یہ حرارت کس چشمے سے نکلی ہے۔یہ مقام بہت نازک ہے‘‘۔۳؎
دسمبر۱۸۹۷ء
دارالامان قادیان سے بذریعہ پوسٹ کارڈ اطلاع ملی ہے کہ ہماری جماعت ہر نماز کی آخری رکعت میں بعد رکوع مندرجہ ذیل دعا بکثرت پڑھے:۴؎
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَاحَسَنَۃًوَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔(بقرہ:۲۰۲)