۲۵؍دسمبر۱۸۹۷ء
حضرت اقدس کی پہلی تقریر برجلسہ سالانہ
تقوی کی بابت نصیحت
حضورؑ نے فرمایا:۔
اپنی جماعت کی خیر خواہی کے لیے زیادہ ضروری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ رقویٰ کی بابت نصیحت کی جاوے،کیونکہ یہ بات عقل مند کے نزدیک ظاہر ہے کہ نجز تقویٰ کے اور کسی بات سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَقُوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُونَ۔(النحل۱۲۹)
ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰماموریت کا ہے تا وہ لوگ خواہ کسی قسم کے بغضوں ،کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسا ہی روبہ دنیا میں تھے ،ان تمام آفات سے نجات پاویں۔
آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو جاوے خواہ اس کی بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اگر اس بیماری کے لئے دوانہ کی جاوے اور علاج کے لئے دکھ نہ اٹھایا جاوے بیمار اچھا نہیں ہو سکتا۔ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کر دیتا ہے کہ کہیں یہ داغ بڑھتا بڑھتا کل منہ کو کالا نہ کر دے۔اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پر ہوتا ہے ۔صغائر سہل انگاری سے کبائر ہو جاتے ہیں ۔صغائر وہی داغ چھوٹا ہے جو بڑھ کر آخر کار کل منہ کو سیاہ کر دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ رحیم وکریم ہے ویسا ہی قہار اور منتقم بھی ہے۔ایک جماعت کو دیکھتا ہے کہ ان کا دعویٰ اور لاف وگزاف تو بہت کچھ ہے اور ان کی عملی صحت ایسی نہیں،تو اس کا غیض و غضب بڑھ جاتا ہے۔پھر ایسی جماعت کی سزا دہی کے لئے وہ کفار کو ہی تجویز کرتا ہے۔جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ مسلمان کئی دفعی کافروں سے تہ تیغ کیے گئے۔جیسے چنگیز خان اور ہلاکوخان نے مسلمانوں کو تباہ کیا ،حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے حمایت اور نصرت کا وعدی کیا ہے ،لیکن پھر بھی مسلمان مغلوب ہوئے۔اس قسم کے واقعات بسا اوقات پیش آے ۔اس کا باعث یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللَّہ تو پکارتی ہے،لیکن اس کا دل اور طرف ہے اور اپنے افعال سے وہ بالکل رو بدنیا ہے تو پھر اس کا قہراپنا رنگ دکھاتا ہے۔