ہم د س باتوں میں سے نو باتیں چھوڑ دیتے ہیں۔چاہیے کہ احتمالات کا سد باب کیا جاوے۔دیکھو ہمارے مخالفوں نے اس قدر تائیدات اور نشانات دیکھے ہیں کہ اگر ا میں تقویٰ ہوتا تو کبھی رو گردانی نہ کرتے۔ایک کریم بخش کی گواہی ہی دیکھو جس نے رو رو کر اپنے بڑھاپے کی عمر میں جبکہ اس کی موت بہت قریب تھی یہ گواہی دی کہ ایک مجذوب گلاب شاہ نے مجھے پہلے سے کہا تھا کہ عیسیٰ قادیان میں پیدا ہو گا اور وہ لدھیانہ میں آوے گا اور تو دیکھے گا کہ مولوی اس کی کیسی مخالفت کریں گے۔اس کا نام غلام احمد ہو گا ۔دیکھو یہ کیسی صاف پیش گوئی ہے جو اس مجذوب نے کی۔کریم بخش کے پابند صول الصلوۃ ہونے اور ہمیشہ سچ بولنے پر سینکڑوں آدمیوں نے گواہی دی جیسا کہ ازالہ اوہام میں مفصل درج ہے۔ اب کیا تقویٰ کا یہ کام ہے کہ اس گوہی کو جھٹلا دیا جاوے۔تقویٰ کے مضمون پر ہم کچھ شعر لکھ رہے تھے اس میں ایک مصرؑہ الہامی درج ہوا وہ شعر یہ ہے ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا اس میں دوسرا مصرعہ الہامی ہے۔جہاں تقویٰ نہیں وہاں حسنہ حسنہ نہیں اور کوئی نیکی نیکی نہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن شریف کی تعریف میں فرماتا ہے۔ھدی للمتقین(البقرہ:۳)قرآن بھی ان لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں۔ابتداء میں قرآن کے دیکھنے والوں کا تقویٰ یہ ہے کہ جہالت اور حسداور بخل سے قرآن شریف کو نہ دیکھیں بلکہ نور قلب کا تقویٰ ساتھ لے کر صدق نیت سے قرآن شریف کو پڑھیں۔ دوسری شرط قبولیت دعا کے واسطے یہ ہے کہ جس کے واسطے انسان دعا کرتا ہو۔اس کے لئے دل میں درد ہو امن یجیب المضطر اذا دعاہ(النمل:۶۳) تیسری شرط یہ ہے کہ وقت اصفیٰ میسر آوے۔ایسا وقت کہ بندہ اور اس کے رب میں کچھ حائل نہ ہو۔قرآن شریف میں جو لیلۃ القدر کا ذکر آیا ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔یہاں لیلۃ القدر کے تین مہینے ہیں۔اور تو یہ کہ رمضان میں ایک رات لیلۃالقدر کی ہوتی ہے۔دوم یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا زمانہ بھی ایک لیلۃ القدر تھا یعنی سخت جہالت اور بے ایمانی کے زمانہ میں وہ آیا جبکہ ملائکہ کا نزول ہوا۔کیونکہ نبی دنیا میں اکیلا نہیں آتا بلکہ بادشاہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ لاکھوں کروڑوں ملائکہ کا لشکر ہوتا ہے۔جو ملائک اپنے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں اور لوگوں کے دلوں کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں ۔سوم لیلۃ لقدر انسان کے لئے اس کا وقت اصفیٰ ہے۔تمام وقت یکساں نہیں ہوتے۔بعض وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم عائشہ کو کہتے ہیں کہ ارحنا یا عائشہ یعنی اے عائشہ مجھے راحت اور خوشی پہنچا اور بعض وقت آپ بالکل دعا میں بالکل مصروف ہوتے ہیں۔جیسا کہ سعدی نے کہا ہے۔