کی عمر بہت تھوڑی تھی۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی نہایت ہی مفید تھی۔تھوڑے سے عرصے میں آپ نے بڑے مفید مفید کام کیے۔انبیاء کے اقوال میں ایک اثر ہوتا ہے۔وہ اپنے ساتھ قوت قدسیہ رکھتے ہیں۔یہ قوت آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں سب سے زیادہ تھی۔ایک آدمی کو راہ پر لانا کیسا مشکل ہوتا ہے۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طفیل کروڑوں آدمی راہ پر آگئے۔اس وقت دنیا میں تمام مذاہب کے مقابلہ پر سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔بعض جغرافیہ والوں نے مسلمانوں کی تعداد کم لکھی ہے۔مگر محققین نے بڑے بڑے ثبوت دے کر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانون کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
کسی بات کا اثر دو طرح سے قائم رہتا ہے۔اعتقاد اً عملاً اعتقادی طور پر سارے مسلمان کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ پر قائم ہیں۔اور عملی طور پر مثلاً سور نہ کھانا تمام مسلمانوں میں خواہ وہ کسی فرقہ یا ملک کے ہوں سب میں نہایت قوت کے ساتھ اس پر عمل ہوتا ہے۔بدی کے ارتکاب میں سے جھوٹ بالنا سب سے زیادہ آسان ہے اور جلدی ہو سکنے والا ہے۔کیونکہ زنا چوری وغیرہ کے واسطے قوت مال ہمت دلیری چاہیے۔مگر جھوٹ کے واسطے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔صرف زبان ہلا دینی پڑتی ہے۔باوجود اس کے اصحاب میں جھوٹ ثابت نہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے بھی جھوٹ نہیں بولا ۔دیکھو کتنا بڑا اثر ہے۔لیکن اس کے مقابل میں حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے دیکھو۔اپنے نبی کا عین گرفتاری کے وقت انکار کر دیا۔ایک نے تیس روپے لے کر اسے پکڑ وا دیا ۔ایک حواری کہتا ہے کہ مسیح نے ایسے نشان دکھائے کہ اگر لکھے جائیں تو دنیامیں نہ سمائیں۔دیکھو یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے۔جو باتیں دنیا میں ہوئیں اور ہونے کے وقت سما گئیں وہ بعد میں کیونکر نہ سما سکتیں۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعائیں سب سے زیادہ قبول ہوئیں۔‘‘
قبولیت دعا کے شرائط
فرمایا:’’قبولیت دعا کے واسطے چار شرطوں کا ہونا ضروری ہے۔تب کسی کے واسطے دعا قبول ہوتی ہے۔
شرط اول یہ ہے کہ اتقاء ہو یعنی جس سے دعا کروائی جائے وہ دعا کرنے والا متقی ہو۔تقویٰ احسن واکمل طور پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں پایا جاتا ہے۔آپ میں کمال تقویٰ تھا۔اصول تقویٰ کا یہ ہے کہ انسان عبودیت کو چھوڑ کر الوہیت کے ساتھ ایسا مل جاوے،جیسا کہ لکڑی کے تختے دیوار کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔اس کے اور خدا کے درمیان کوئی اور شے حائل نہ رہے۔امور تین قسم کے ہوتے ہیں۔ایک یقینی بدیہی یعنی ظاہری دیکھنے میں ایک بات بری یا بھلی ہے۔دوم یقینی نظری یعنی ویسا یقین تو نہیں ہے۔مگر پھر بھی نظری طور پر دیکھنے میںوہ امر اچھا یا برا ہو۔سوم امور مشتبہ یعنی ان میں شبہ وہ کہ شاید یہ برے ہوں۔پس متقی وہ ہے کہ اس احتمال اور شبہ سے بھی بچے۔اور تینوں مراتب کو طے کرے۔حضرت عمر کا قول ہے کہ شبہ اور احتمال سے بچنے کے لئے