کے مطابق ہم فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔اگر کوئی شخص ایسے فیصلہ کرنا چاہے کہ جو مار ہمارا عین سرور عین مدعا ہے اور عین آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
ہمارا مذہب وہابیوںکے بر خلاف ہے۔ہمارے نزدیک تقلید کو چھوڑنا ایک اباحت ہے۔کیونکہ ہر ایک شخص مجتہد نہیں ہے۔ذرا سا علم ہو نے پر کوئی متابعت کے لائق نہیں ہو جاتا ۔کیا وہ اس لائق ہے کہ سارے متقی اور تزکیہ کرنے والوں کی تابعداری سے آزاد ہو جائے۔قرآن شریف کے اسرار سوائے مطہر اور پاک لوگوں کے اور کسی پر نہیں کھولے جاتے ہمارے ہاں جو آتا ہے اسے پہلے ایک حنفیت کا رنگ چڑھانا پڑتا ہے۔میرے خیال میں یہ چاروں مذہب خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور اسلام کے واسطے ایک چار دیواری ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے لئے ایسے اعلیٰ لوگ پیدا کیے ہیں جو نہایت متقی اورصاحب تزکیہ تھے۔آجکل کے لوگ جو بگڑے ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اماموں کی متابعت چھوڑ دی گئی ہے۔خدا تعالیٰ کو دو قسم کے لوگ پیارے ہیں۔اول وہ جن کو خود اللہ تعالیٰ نے پاک کیا ہے اور علم دیا۔دوم وہ جو ان کی تابعداری کرتے ہیں۔ہمارے نزدیک ان لوگوں کی تابعداری کرنے والے بہت اچھے ہیں۔کیونکہ ان کو تزکیہ نفس عطا کیا گیا تھا۔اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ کے قریب تر کے ہیں۔میں نے خود سنا ہے کہ بعض لوگ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں سخت کلامی کرتے ہیں۔یہ ان لوگوں کی غلطی ہے۔‘‘
(از نوٹ بک مولوی شیر علی ساحب)
۱۵؍اگست۱۹۰۱ء
کی صبح کو ایک الہام ہوا
وانی ارٰی بعض المصائب تنزیل ؎۱
۲۶؍اگست۱۹۰۱ء
صبح بوقت سیر فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قوت قدسی
’’اچھی وہ زندگی ہے جو عمدہ ہو؛اگرچہ تھوڑی ہو۔حضرت نوح کے مقابلہ میں ہمارےنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم