لگا رہے جب تک کہ غر غرہ شروع ہو جائے ۔جب تک اپنی طلب اور صبر کو اس حد تک نہیں پہنچاتا ۔انسان بامراد نہیں ہو سکتا۔اور یوں خدا تعالیٰ قادر ہے۔وہ چاہے تو ایک دم میں با مراد کر دے۔مگر عشق صادق کا یہ تقاضا ہونا چاہیے کہ وہ راہ طلب میں پویاں رہے۔سعدی نے کہا ہے ؎ گر نا شد بدوست رہ برون شرط عشق است در طلب مردن مرض دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک مرض تو مستوی اور ایک مرض مختلف۔مرض مستوی وہ ہوتا ہے جس کا درد وغیرہ محسوس ہوتا ہے۔اس کے علاج کا تو انسان فکر کرتا ہے اور مرض مختلف کی چنداں پرواہ نہیں کرتا ۔اس لئے ضرورت ہے کہ ہر وقت انسان خدا تعالیٰ سے استغفار کرتا رہے۔قبروں پر جانے سے کیا فائدہ۔خدا تعالیٰ نے تو اصلاح کے لئے قرآن شریف بھیجا ہے۔اگر پھونک مار کر اصلاح کر دینا خدا تعالیٰ کا قانون ہوتا تو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ والہ ولسم تیرہ برس تک مکہ میں کیوں تکلیفیں اٹھاتے ابو جہل وغیرہ پر اثر کیوں نہ ڈالتے ۔ابو جہل کو جانے دو۔ابو طالب کو تو آپ سے بھی محبت تھی۔غرض بے صبری اچھی نہیں ہوتی۔اس کا نتیجہ ہلاکت تک پہنچاتا ہے۔‘‘ ۲؍اگست۱۹۰۱؁ء (دارالامان میں ) آج جمعہ کا دن ہے۔صبح آٹھ بجے کے قریب ڈاکٹر رحمت علی ہسپتال اسسٹنٹ چھاونی میاں میر تشریف لائے۔جمعہ کی نماز چھوٹی اور بڑی دونوں مسجدوں میں ادا ہوئی۔صاحب زادہ مبارک احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کی طبیعت آج بحمد اللہ نسبتاً بہت اچھی رہی۔مغرب کی نماز کے بعد حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ حس معمول بعد نماز بیٹھے رہے۔ایک شخص جو کئی دن سے دارالامان میں آیا ہوا تھا۔ایک عجیب حرکت کی۔اس نے قرآن شریف کو ہاتھ میں لے کر کہا کہ یا امام پاک!یہ خدا کا کلام ہے۔میں اس کو پیش کرتا ہوں اور تین سو روپیہ آپ سے مانگتا ہوں اور قرآن شریف کو بار بار حضرت اقدس کے ہاتھ میں دیتا ہے اور اصرار کرتا تھا کہ آپ اس کو رکھیں۔حضرت اقدس نے فرمایا: اس زمانہ کی سب سے بڑی ضرورت ہم قرآن شریف ہی کی تعلیم دینے کے لئے آئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف تو اس لیے بھیجا ہے کہ اس پر عمل کیا جاوے۔اس میں کہیں نہیں لکھا کہ خدا کسی کو مجبور کرتا ہے۔انسان کی ہر حالت خواہ وہ آرام کی ہو