یکم اگست۱۹۰۱؁ء صبر واستقلال حضرت اقدس امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور جناب مولوی عبدلکریم صاحب سلمہ ربہ نے ایک شخص کو پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ شخص بہت سی گدیوںمیں پھرا ہے اور بہت سے پیروں اور مشائخ کے پاس ہو آیا ہے۔حضرت اقدس نے مذکورہ شخص کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’کہو کیا کہتے ہو۔‘‘ شخص۔حضور! میں بہت سے پیروں کے پاس گیا ہوں۔مجھ میں بعض عیب ہیں۔اول میں جس بزرگ کے پاس جاتا ہوں تھوڑے دن رہ کر پھر چلا آتا ہوں اور طبیعت اس سے بد اعتقاد ہو جاتی ہے۔دوم۔مجھ میں غیبت کرنے کا عیب ہے سوم۔عبادت میں دل نہیں لگتا اور بھی بہت سے عیب ہیں حضرت اقدس:میں نے سمجھ لیا ہے۔اصل مرض تمہار ابے صبری کا ہے۔باقی جو کچھ ہیں ان کے عوار ض ہیں۔دیکھو انسان اپنے دنیا کے معاملات میں جبکہ بے صبر نہیں ہوتا اور صبر واستقلال سے انجام کا انتظار کرتا ہے۔پھر اپنے خدا کے حضور بے صبری کیوں لے کر جاتا ہے ۔کیا ایک زمین دار ایک ہی دن میں کھیت میں بیج ڈال کر اس کے پھل کاٹنے کی فکر میں ہو جاتا ہے یا ایک بچہ کے پیدا ہوتے ہی کہتا ہے کہ یہ اسی وقت جوان ہو کر میری مدد کرے۔خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں اس قسم کی عجلت اور جلد بازی کی نظیریں اور نمونے نہیں ہیں۔وہ سخت نادان ہے جو اس قسم کی جلد بازی سے کام لیتا ہے۔اس شخص کو بھی اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھنا چاہیے ۔جس کو اپنے عیب عیب کی شکل میں نظر آجاویں۔ورنہ شیطان بد کاریوں اور بد اعمالیوں کو خوش رنگ اور خوبصورت بنا کر دکھاتا ہے۔پس تم اپنی بے صبری کو چھوڑ کر صبر اور استقلال کے ساتھ خدا تعالیٰ سے توفیق چاہو اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔بغیر اس کے کچھ نہیں ہے۔جو شخص اہل اللہ کے پاس اس غرض سے آتا ہے کہ وہ پھونک مار کر درست کر دے ،وہ خدا پر حکومت کرنی چاہتا ہے۔یہاں تو محکوم ہو کر آنا چاہیے۔ساری حکومتوں کو جب تک چھوڑتا نہیں کچھ بھی نہیں بنتا۔جب بیمار طبیب کے پاس جاتا ہے تو وہ اپنی بہت سی شکایتیں بیان کرتا ہے ۔مگر طبیب شناخت اور تشخیص کے بعد معلوم کر لیتا ہے کہ اصل مرض کیا ہے۔وہ اس کا علاج شروع کر دیتا ہے۔اسی طرح سے تمہاری بیماری بے صبری کی ہے۔اگر تم اس کا علاج کرو تو دوسری بیماریاں بھی خدانے چاہا تو دور ہو جائیں گی۔ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے کبھی بھی مایوس نہ ہو ۔اور اس وقت تک طلب میں