معراج
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی معراج کی بابت کسی نے پوچھا ۔فرمایا: ’’سب حق ہے۔معراج ہوئی تھی۔مگر یہ فانی بیدار اور فانی اشیاء کے ساتھ نہ تھی۔بلکہ
وہ اور رنگ تھا۔جبرائیل بھی تو رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آتا تھا اور نیچے اترتا تھا۔جس رنگ میں اس کاا ترنا تھا۔اسی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا چڑھنا ہوا تھا ۔نہ اترنے والا کسی کو اترتا نظر آتا ہے اور نہ چڑھنے والا کو ئی چڑھتا ہوا دیکھ سکتا ہے۔حدیث شریف میں جو بخاری میں آیا ہے۔ثم استیقظ یعنی پھر جاگ اٹھے۔‘‘
بائبل اور سائنس
حضرت نوح ؑ کی کشتی کا ذکر رتھا۔فرمایا:
’’ بائبل اور سائنس کی آپس میں ایک ایسی عداوت ہے جیسی کہ دو سوکنیں ہوتی
ہیںبائبل میں لکھا ہے کہ وہ طوفان ساری دنیا میں آیا اور کشتی تین سو ہاتھ لمبی اور پچاس ہاتھ چوڑی تھی۔اور اس میں حضرت نوح نے ہر پاک جانوروں میں سے سات جوڑے اور ناپاک میں سے دو جوڑے ہر قسم کی کشتی میں چڑھائے تھے حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط تھیں۔اول تو اللہ تعالیٰ نے کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کیا۔ جب تک پہلے رسولوں کے ذریعہ سے اس کو تبلیغ نہ کی ہو ۔اور حضرت نوح کی تبلیغ ساری دنیا کی قوموں تک کہاں پہنچی تھی جو سب غرق ہو جاتے۔دوم اتنی چھوٹی سی کشتی میں جو صرف ۳۰۰ ہاتھ لمبی اور ۵۰ ہاتھ چوڑی ہو ۔ساری دنیا کے جانور بہائم چرند پرند سات سات جوڑے یا دو دو جوڑے کیونکر سما سکتے ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کتاب میں تحریف ہے اور اس میں بہت سی غلطیاں داخل ہو گئی ہیں۔تعجب ہے کہ بعض سادہ لوح علماء اسلام نے بھی ان باتوں کو اپنی کتابوں میں درج کر لیا ہے ۔مگر قرآن شریف ہی ان بے معنی باتوںسے پا ک ہے ۔اس پر ایسے اعتراض وارد نہیں ہو سکتے ۔اس میں نہ تو کشتی کی لمبائی چوڑائی کا ذکر ہے اور نہ ساری دنیا پر طوفان آنے کا ذکر ہے بلکہ صرف الارض یعنی وہ زمین جس میں نوح نے تبلیغ کی صرف ا کا ذکر ہے۔لفظ اراراٹ جس پر نوح کی کشتہ ٹھہری اصل اریٰ ریت ہے۔جس کے معنی ہیں ۔میں پہاڑ کی چوٹی دیکھتا ہوں۔ریت پہاڑ کی چوٹی کو کہتے ہیں۔قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے لفظ جودی رکھا ہے ۔جس کے معنی ہیں میرا جود دکرم یعنی وہ کشتی میرے جودو کرم پر ٹھہری۔‘‘
جہاد آخر الحیل ہے
فرمایا:’’نادان مولوی ذرا ذرا بات پر جہاد کا فتویٰ دیتے ہیں؛حالانکہ جہاد تو آخر الحیل تھا۔یہاںاس کو اول الحیل بناتے ہیں۔کو ئی بد ذات کسی