کرتے ہیں۔یہ دعویٰ غلط ہے کہ پیغمبر خدا کی طرح ہر وقت حاضر ناظر ہوتے ہیں ۔اگر یہ بات سچی ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حضرت عائشہ کے متعلق کیوں گھبراہٹ ہوتی۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی۔سعدی نے خوب لکھا ہے؎
کے پر سید زاں خرد مند کہ اے روشن گہر پیر خرد مند
زمصرش بوئے پیراہن شمیدی چرا در چاہ کنعاش ندیدی
بگفت احوال ما برق جہاں است دمے پیدا ودیگردم نہاں است
گہے بر طارم اعلیٰ نشینم گہے بر پشت پائے خود نہ بینم
موجودہ انجیل اصلی نہیں
فرمایا:’’موجودہ انجیل کے اصلی نہ ہونے کے لئے ایک بڑی بھاری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر نبی کو ہم اس کی قوم کی زبان
میںاس کی طرف بھیجتے ہیں۔اب ظاہر ہے کہ یہود کی زبان عبرانی تھی؛حالانکہ اس وقت عبرانی میں کوئی انجیل اصلی نہیں ملتی،بلکہ یونانی کو قرار دیا جاتا ہے جو کہ سنت اللہ کے برخاف ہے۔‘‘
ابتلاء اور امتحان
فرمایا:
’’دنیوی بادشاہوں اور حاکموں نے جو اعلیٰ مراتب کے عطا کرنے کے واسطے امتحان مقرر کیے ہیں۔یہی سنت اللہ کے مطابق ہے ۔اللہ تعالیٰ بھی بعد امتحانوں کے درجات عطا کرتا ہے۔جن مصائب اور تکلیفات کے امتحان میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پاس ہوئے وہ دوسرے کام کا نہ تھا۔؎۱
۲۶؍جولائی تایکم اگست۱۹۰۱ء
افراط وتفریط
کسی مقام پر ایسی کثرت بارش کا ذکر تھا۔جس سے بہت نقصان کا اندیشہ ہوا ۔حضرت ؑ نے فرمایا۔’’جیسا لوگ احکام الٰہی کے معاملہ میں افراط و تفریط کرتے