ان کی مثال اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم سے دی ہے۔احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا(تحریم:۱۳)ہر ایک مومن جو تقویٰ و طہارت میں کمال پیدا کرے وہ بروزی طور پر مریم ہوتا ہے اور خدا اس مین اپنی روح پھونک دیتا ہے۔جو کہ ان مریم بن جاتی ہے۔زمخشری نے بھی اس کے یہی معنی کیے ہیں کہ یہ آیت عام ہے۔اور اگر یہ معنی کیے جاویں تو حدیث شریف میں آیا ہے کہ مریم اور ابن مریم کے سوام مس شیطان سے کوئی محفوظ نہیں ۔اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ تمام انبیاء پر شیطان کا دخل تھا ۔پس دراصل اس آیت میں بھی اشارہ ہے کہ ہر مومنجو اپنے تئیں اس کمال کو پہنچائے ،خدا کی روح اس میں پھونکی جا تی ہے اور وہ ابن مریم بن جاتا ہے اور اسمیں ایک پیش گوئی ہے کہ اس امت میں ابن مریم پیدا ہو گا ۔تعجب ہے کہ لوگ اپنے بیٹوں کا نام محمد اور عیسیٰ اور موسیٰ اور یعقوب اور اسحاق اور اسما عیل اور ابراہیم رکھ لیتے ہیں اور کو جائز جانتے ہیں پر خدا کے لئے جائز نہیں جانتے کہ وہ کسی کا نام عیسیٰ یا ابن مریم رکھ دیں۔‘‘
امام بطور وکیل کے ہوتا ہے
کسی کے سول پر فرمایا:
’’مخالف کے پیچھے نماز بالکل نہیں ہوتی۔پرہیز گار کے پیچھے نماز پڑھنے سے آدمی بخشا جاتا ہے۔نماز تو تمام برکتوں کی کنجی ہے ۔نماز میں دعا قبول ہوتی ہے ۔امام بطور وکیل کے ہوتا ہے ۔اس کا اپنا دل سیاہ ہو تو دوسروں کو کیا برکت دے گا۔‘‘
یہود کی ہٹ دھرمی
فرمایا۔’’یہود تو کہا کرتے تھے کہ ہم تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے آگے ملا کے نبی کی کتاب رکھ دیں گے اور کہہ دیں گے کہ تو نے تو اس کتاب میں فرمایا
تھا کہ مسیح کے پہلے الیاس نبی آئے گا ۔اور تو نے یہ نہیں کہا تھا کہ مثیل الیاس یا اس کا بروز یوحنا کی شکل میں آئے گا ۔اب اگر یہ سچا مسیح ہے اور ہم نے اس کو نہیں مانا تو ہمارا کیا قصور ہے۔یہی حال آجکل کے علماء کا ہے جو مسیح کے منتظر ہیں۔‘‘
اس بات کا ذکر آیا کہ حضرت مسیح نے جب یہود کو کہا کہ یوحنا ہی الیاس ہے تو وہ یوحنا کے پاس گئے اور معلوم نہیں کہ کن الفاظ میں ان سے پوچھا کہ کیا تو ہی یوحنا ہے؟یوحنا نے انکار کیا کہ میں الیاس نہیں ہوں اور اسی طرح حضرت مسیح کی تکذیب ہوئی۔اس پر فرمایا:
’’معلوم نہیںکہ یہودیون نے کس طرح سے دھوکے کی گفتگو کی ہو گئی ۔یوحنا کو کیا خبر تھی کہ یہ کیا شرا