کا جواب دیں کہ اس وقت کیوں ان لوگوں کو یہی باتیں اچھی معلوم ہوتی تھیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ مہدی جو آنے والا ہے۔اس کے آپ کا نام میرے باپ کے نام اور اس کی ماں کا نام میری ماں کے نام ہو گا اور وہ میرے خلق پر ہو گا۔اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہی مطلب تھا کہ وہ میرا مظہر ہو گا۔جیسا کہ ایلیا نبی کا مظہر یوحنا نبی تھا۔اس کو صوفی بروز کہتے ہیں کہ فلاں شخص موسیٰ کا مظہر اور فلاں عیسیٰ کا مظہر ہے۔نواب صدیق حسن خان نے بھی اپنی کتاب میںلکھا ہے کہ آخرین منہم سے وہ لوگ مرادہیں جو مہدی کے ساتھ ہو ں گے۔اور وہ لوگ قائم مقام صاحبہ کے ہوں گے۔اور ان کا امام یعنی مہدی قائم مقام حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہو گا۔‘‘؎۱ ۲۰؍جولائی۱۹۰۱؁ء ذاتیات میں دخل تقویٰ کے خلاف ہے منشی الٰہی بخش صاحب اور ان کے رفیق اور ان کی تصنیف عصاء موسیٰ کا ذکر تھا۔کسی نے کہا کہ فلاں شخص ان لوگوں کے چال چلن کی نسبت ایسی بات کہتا تھا۔فرمایا ’’ہم اس میں پڑتے اور نہ ہم اس طرح ذاتیات میں دخل دیتے ہیں۔یہ بات تقویٰ کے برخلاف ہے۔‘‘ بابو محمدصاحب نے ذکر کیا کہ انہوں نے عصائے موسیٰ میں کئی باتیں واقعات کے بر خلاف لکھی ہیں۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا: ’’ہم نے ضرورۃ امام میں یہ ظاہر کیا تھا کہ ہمیں ان پر حسن ظن ہے مگر افسوس کہ انہوں نے اس طرح واقعات کے بر خلاف امور لکھ کر ہمارے حسن ظن کو دور کر دیا ہے۔کسی دوسرے شخص کی عبارت نقل کر کے الٰہی بخش صاحب میری نسبت اور میرے والدصاحب کی نسبت ہتک کے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ ہو ایسے مفلس تھے۔تقویٰ کا خاصہ نہیں کہ محض جھوٹ نقل کرے۔ناقل بھی تو ذمہ دار ہوتا ہے۔اگر الٰہی بخش کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے پرانے نہ ہوتے اور وہ ہمارے خاندان کے حالات سے واقفیت نہ رکھتے تھے اور کسی دور علاقہ کے رہنے والے ہوتے اور سر لیپل گریفن کی کتاب راسائے پنجاب میں میرے والد صاحب کا ذکر نہ پڑھا ہوتا اور غدر میں سر کار انگریزی کو پچاس سواروں کی مدد کے حال سے نا واقف ہو ئے تو میں ان کو معذور سمجھتا۔