نبوت محمدیہ مولوی آل حسن صاحب اور مولوی رحمت اللہ صاحب نے نصاریٰ کے سامنے پیش کی تھی۔اور وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکے اور اب یہی دلیل قرآنی ہم اپنے دعویٰ کی صداقت میں پیش کرتے ہیں۔حافظ ساحب اور ن کے ساتھی اکبر بادشاہ کا نام لیتے تھے۔مگر ان کی یہ سراسر غلطی ہے ۔تقول کے معنی ہیں جھوٹا کلام پیش کرنا ۔اگر اکبر بادشاہ نے ایسا دعویٰ کیا تھا ،تو اس کا کلام پیش کریں جس میں اس نے کہا ہو کہ مجھے خدا کی طرف سے یہ الہامات ہوئے ہیں۔ایسا ہی روشن دین جالندھری اور دوسرے لوگوں کا نام لیتے ہیں۔مگر کسی کے متعلق یہ پیش نہیں کر سکتے کہ اس نے کونسے جھوٹے الہامات شائع کیے ہیں۔اگر کسی کی متعلق ثابت شدہ مرتبر شہادت کے ساتھ حافظ صاحب یا ان کے ساتھی یہ چابت کر دیں کہ اس نے جھوٹا کلام خدا پر لگایا؛حالانکہ وہ خدا کی طرف سے کلام نہ ہو۔اور پھر ایسا کرنے پر اس نے پیغمبر خدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے برابر عمر پائی ہو۔یعنی ایسے دعویٰ پر وہ ۲۳ سال زندہ رہا ہو ،تو ہم اپنی ساری کتابیں جلا دیں گے۔ہمارے ساتھ کینہ کرنے میں ان لوگوںنے ایسا لغو کیا ہے کہ اسلام پر ہنسی کرتے ہیں اور خدا کے کلام کے مخالف بات کرتے ہیں۔گو ان کی ایسی بات کرنے سے قرآن جھوٹ اہوتا ہے۔پھر بھی ہم کو جھٹلاتے ہیں۔مگر تعصب برا ہے۔ایسی بات بولتے ہین جس سے قرآن شریف پر زد ہو ۔ہمارا تو کلیجہ کانپتا ہے۔ کہ مسلمان ہو کر ایسا کرتے ہیں ۔ایک تو وہ مسلمان تھے کہ بظاہر ضعیف حدیث میں بھی اگر سچائی پاتے تو اس کو قبول کر لیتے اور مخالفوںپر حجت میں پیش کرتے اور ایک یہ ہے کہ قرآن کی دلیل کو نہیں مانتے۔ہم تو حافظ صاحب کو بلاتے ہیں کہ شائستگی سے،خلق ومحبت سے چند دن یہاںآکر رہیں۔ہم ان کا ہر جانہ دینے کو تیار ہیں ۔نرمی سے ہمارے دلائل کو سنیں اور پھر اپنا اعتراض کریں۔مولوہ احمد ساحب کو بھی بے شک اپنے ساتھ لائیں۔
بابو محمد حسین نے عرض کی کہ حافظ محمد یوسف صاحب اعتراض کرتے تھے کہ مولوی عبدلکریم صاحب نے الحکم میں یہ کفر لکھا ہے کہ وہ یہ احمد عربی ہے۔فرمایا:
’’حافظ ساحب سے پوچھو کہ براہین احمدیہ میں جو میرا نام محمد لکھا ہے اور مسیح بھی لکھا ہے۔اورتم لوگ اس کو پڑھتے رہے۔اور اس کتاب کی تعریف کرتے رہے۔اور اس کے ریویو میںلمبی چوڑی تحریریں کرتے رہے تو اس کے بعد کونسی کوئی نئی بات ہو ئی ہے۔۔مولوی نذیر حسین دہلوی نے اس کتاب کے متعلق خود میرے سامنے کہا تھا کہ اسلام کی تائید میں جیسی یہ عمدہ کتاب لکھی گئی ہے۔ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔اس وقت منشی عبدلحق صاحب بھی موجود تھے۔اور بابو محمد صاحب بھی موجود تھے۔یہ وہ زمانہ برا ہین کا تھا جب کہ تم خود تسلیم کرتے تھے کہ اس میں کوئی بناوٹ وغیرہ نہیں ہے۔اگر یہ خدا کا کلام نہ ہوتا تو کیا انسان کے لئے یہ ممکن تھا کہ اتنی مدت پہلے سے اپنی پٹڑی جمائے۔اور ایسا لمبا منصوبہ سوچے۔اب چاہیے کہ یہ لوگ اس نفاق