ہوتا ہے ۔ان معنوں نے ہی اسلام کو بد نام کیا ہے اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر سرحدی نادان مسلمان بے گناہ انگریزوں کو قتل کرنے میں ثواب سمجھتے ہیں؛چنانچہ آئے دن ایسی وارداتیں سننے میں آتی ہیں۔پچھلے دنوں سرحدی لاہور میں ایک میم کو قتل کر دیا تھا۔ان احمقوں کو اتنا معلوم نہیں کہ یہ شہادت نہیں قتل بے گناہ ہے۔اسلام کا منشاء یہ نہیں ہے کہ وہ فتنہ وفساد برپا کرے بلکہ اسلام کا مفہوم ہی صلح آشتی کو چاہتا ہے۔اسلامی جنگوںپر اعتراض کرنے والے اگر یہ دیکھ لیتے کہ ان میں کیسے احکام جاری ہوتے ہیں تو وہ حیران رہ جاتے۔بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہیںکیا جاتا تھا۔جزیہ دینے والوںکو چھوڑ دیا جاتا تھا۔اور ان جنگوںکی بناء دفاعی اصول پر تھی۔ہمارے نزدیک جو جاہل پٹھان اس طرح بے گناہ انگریزوں پر جا پڑتے ہیں۔اور ان کو قتل کرتے ہیں وہ ہر گز شہادت کا درجہ نہیں حاصل کر سکتے بلکہ وہ قاتل ہیں اور ان کے ساتھ قاتلوں کا سا سلوک ہو نا چاہیے۔ تو شہید کے معنی یہ ہیں کہ اس مقام پر اللہ تعالیٰ ایک کاص قسم کی استقامت مومن کا عطا کرتا ہے۔وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر مصیبت اور تکلیف کو ایک لذت کے ساتھ برداشت کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے ۔پس اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم (الفاتحہ:۷۷۶)میں معم علیہم گروہ میں سے شہید کا گروہ بھی ہے اور اسی سے یہ بھی مراد ہے کہ استقامت عطا ہو ،جو جان تک دے دینے میں بھی قدم کو ہلنے نہ دے۔‘‘؎۱ ۱۹؍جولائی۱۹۰۱؁ء صداقت نبوت کی ایک قرآنی دلیل حافظ محمد یوسف ساحب کا زکر آیا کہ بعض باتوں پر اعتراض کرتے تھے۔فرمایا: ’’ان کو تو سرے سے ہی ان سب باتوں سے انکار ہے۔جبکہ قرآن شریف نے صداقت نبوت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں لو تقول والی دلیل پیش کی ہے۔اور حافظ صاحب اس سے انکار کرتے ہیں تو پھر کیا؟اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اگر اپنی طرف سے کوئی بات کہہ کر لوگوں کو کہے اور اس کو میری طرف نصوب کرے اور کہے کہ یہ خدا کا کلام ہے ؛حالانکہ وہ خدا کا کلام نہ ہو تو تو ہلاک ہو جائے گا ۔یہی دلیل صداقت