کو پاش پاش کر دیتی ہے ۔سو اول نوبت دشمنوں کی ہوتی ہے اور آخر میں اس کی باری آتی ہے ۔ اس کی طرف خدا تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے والعاقبۃ للمتقین(الاعراف:۱۲۹)پھر خدا تعالیٰ کے ماموروں پر مصائب اور مشکلات کے آنے کا ایک یہ بھی سر ہوتا ہے ،تا ان کے اخلاق کے نمونے دنیا کو دکھائیں جائیںاور اس عظیم الشان بات کو دکھائے جو ایک معجزہ کے طور پر ان میں ہوتی ہے وہ کیا ہے؟
استقامت
استقامت ایک ایسی شے کو کہتے ہیں الاستقامۃ فوق الکرامۃ ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام میں یہ استقامت ہی تو تھی کہ خواب میں حکم ہوا کہ تو بیٹا ذبح کر حالانکہ خواب
کی تعبیر اور تاوئل بھی ہو سکتی تھی،مگر خدا تعالیٰ پر ایسا ایمان اور دل میں ایسی قوت ہے کہ یہ حکم پاتے ہی معاً تعمیل کے واسطے تیار ہو گئے اور اپنے ہاتھ سے نوجوان بیٹے کو ذبح کرنے لگے۔آجکل اگر کسی کا مرض میں مبتلا ہو کر مر جائے تو خدا تعالیٰ کی نسبت ہزار ہا شکوک پیدا ہو جاتے ہیں اور شکوہ و شکایت کے لئے زبان کھولتے ہیں،لیکن ایک ابراہیم ہے کہ بیٹے کی محبت کو کچل ڈالا اور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کو تیار ہو گیا ۔ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا ،ایسے آدمیوں کے ککمات طیبات قرار دئے جاتے ہیں اور ان کو ذریعہ دعا ،ا کے کپڑوں کو متبرک قرار دیا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عالی حوصلگی اور استقامت
یاد رکھو ۔مومنو کا ایلام برنگ انعام ہو جاتا ہے۔
اور اس سے عوام کو حصہ نہیں دیا جاتا ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تیرہ سالہ زندگی جو مکہ میں گزری۔اس میں کس قدر مشکلات اور مسائب آحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر آئیں ہم تو اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔دل کانپ اٹھتا ہے جب ان کا تصور کرتے ہیں۔اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عالی حوصلگی فراخدلی استقلال اور عزم و استقامت کا پتہ چلتا ہے۔کیسا کوہ وقار انسان ہے کہ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں،مگر اس کو ذرا بھی جنبش نہیں دے سکتے۔وہ اپنے منصب کے ادا کرنے میں ایک لمحہ سست اور غمگین نہیں ہوا ۔وہ مشکلات اس کے ارادے کو تبدیل نہیں کر سکیں۔بعض لوگ غلط فہمی سے کہہ اٹھتے ہیں کہ آپ تو خدا کے حبیب مصطفیٰ اور مجتبی تھے۔پھر یہ مصیبتیں اور مشکلات کیوں آئیں؟میں کہتا ہوں کہ پانی کے لئے جب تک زمین کو کھودا نہ جاوے۔اس کا جگر پھاڑا نہ جاوے وہ کب نکل سکتا ہے۔کتنا ہی گز گہرا زمین کو کھودتے چلے جائیں۔تب کہیں جا کر خوشگوار پانی نکلتا ہے۔جو مایہ حیات ہوتا ہے۔اسی طرح وہ لذت جو خدا تعالیٰ کی راہ میں استقلال اور ثبات قدم دکھانے سے نہیں ملتی جب تک ان مشکلات اور مصائب میں سے ہوکر انسان نہ گزرے۔وہ لوگ جو اس کوچہ سے بے خبر ہیں وہ ان مصائب کی لذت سے کب آشنا ہو سکتے ہیں اور کب اسے محسوس