اور بر گزیدوں کی دنیا مداح ہے۔دیکھو ہمارے رسول پا ک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عظمت کس قدر دنیا میں قائم ہے۔۹۴ کروڑ مسلمان آپ کا نام لینے والے موجود ہیں،جو ہر وقت آپ پر درود پڑھتے ہیں۔کیا کوئی قیصرو کسریٰ پر بھی درود پڑھتا ہے؟حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کس قدر عزت ہو رہی ہے۔یہاں تک کہ نادانون نے اپنی جہالت اور کم مائیگی کی وجہ سے ان کو خدا بنا رکھا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ رسولوں کا طبقہ مصائب اٹھا کر دنیا سے گزر گیا۔مگر ان کا خدا کے لئے دنے اکے عیش وآرام کو چھوڑ کر طرح طرح کے آلام ومصائب کے بار کواٹھا لینا ا کی عظمت کا باعث ہو گیا ۔یہ بات نہیں ہے کہ خدا کے محبوبوں کو تکا لیف آتیں ہیں۔ان کی تکلیف میں ایک لطیف سر ہوتا ہے۔ان پر اس لیے سب سے زیادہ تکالیف اور مصائب نہیں آتیں کہ تباہ ہو جائیں،بلکہ اس لئے کہ تا زیادہ سے زیادہ پھل اور پھولوں میں ترقی کریں۔دیکھو دنیا میں جو ہر قابل کے لئے خدا نے یہی قانون ٹھہریا ہے کہ اول وہ صدمات کا تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔کسان زمین میں ہل چلا کر اس کا جگر پھاڑتا ہے۔اور اس مٹی کو باریک کرتا ہے۔یہان تک کہ ہوا کے جھونکے اسے ادھر ادھر لیے اڑتے پھرتے ہیں،نادان خیال کرے گا کہ زمین دار نے بڑی غلطی کی جو اچھی بھلی زمین کوخراب کر دیا ۔مگر عقلمند خوب سمجھتا ہے کہ جب تک زمین کو اس درعجہ تک نہ پہنچایا جاوے وہ پھل پھول پیدا کرنے کی قابلیت کے جوہر نہیں دکھا سکتی۔اسی طرح زمین میں بیج ڈال دیا جاتا ہے،جو خاک میں مل کر بالکل مٹی کے قریب قریب ہو جاتا ہے۔لیکن کیا وہ دانے اس لئے مٹی میں ڈالے جاتے ہیں کہ زمین دار ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے؟نہیں نہیں وہ دانے اس کی نگاہ میں بیش بہا قیمت ہیں۔اس کی غرض مٹی میں گرانے کی صرف یہ ہے کہ وہ پھلیں اور پھولیں اور ایک ایک کی بجائے ہزار ہزار ہو کر نکلیں۔ جبکہ ہر جوہر قابل کے لئے خدا نے یہی قانون رکھا ہے وہ اپنے خاص بندوں کو مٹی میں پھینک دیتا ہے۔اور لوگ ان کے اوپر چلتے ہیں اور پیروں کے نیچے کچلتے ہیں۔مگر کچھ وقت نہیں گزرتا کے وہ اس سبزہ کی طرح (جو خس وخاشاک میںدبے ہوئے دانے سے نکلتا ہے)نکلتے ہیں۔اور ایک عجیب رنگ اور آب کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں جو ایک دیکھنے والا تعجب کرتا ہے۔یہی قدیم سے بر گزیدہ لوگوں کے ساتھ سنت اللہ ہے کہ وہ رطہ عظیمہ میں ڈالے جاتے ہیں،لیکن نہ اس لئے کہ غرق کیے جاویں بلکہ ان کے واسطے ان موتیوںکے وارث ہو جائیں جو دریائے وحدت کی تہہ میں ہیں۔وہ آگ میں ڈالے جاتے ہین نہ اس لئے کہ جلائے جائیں بلکہ اس غرض کے لئے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا تماشہ دکھایا جاوے۔غرض ان سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور ہنسی کی جاتی ہے۔ان پر لعنت کرنا ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے۔یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اپنا جلوہ دکھاتا ہے اور اپنی نصرت کی چمکار دکھاتا ہے۔اس وقت دنیا کو ثابت ہو جاتا ہے اور غیرت الٰہی اس غریب کے لئے جوش مارتی ہے اور ایک ہی تجلی میں اعداء