وہ مظہر الٰہی اور خلیفۃ اللہ ہوتا ہے۔مختصر خلاصہ ہماری تعلیم کا یہی ہے کہ انسان اپنی تمام طاقتوں کو خدا کی طرف لگا دے گا۔ مسیح علیہ السلام کی بن باپ ولادت حضرت مسیح ؑ کے بے باپ پیدا ہونے کے متعلق ذکر تھا:فرمایا: ’’ہمارا ایمان اور اعتقاد یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ بن باپ تھے۔اور اللہ تعالیٰ کو سب طاقتیں ہیں۔نیچری جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا باپ تھا،وہ بڑی غلطی پر ہیں ایسے لوگوں کا خدا مرہ خدا ہے۔اور ایسے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی۔؎۱ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بے باپ پیدا نہیں کر سکتا۔ہم ایسے مرد کو اسلام سے خارج کرتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ تمہاری حالت ایسی ردی ہو گئی ہے کہ تم میں اب کوئی اس قابل نہیں کہ تم میں س نبی ہو سکے۔یا اس کی اولاد میں سے کوئی نبی ہو سکے۔اس واسطے ا ٓخری خلیفہ موسوی کو اللہ تعالیٰ نے بے باپ کے پیدا کیا اور ان کو سمجھایا کہ اب نبوت تماہرے خاندان سے گئی۔اسی کی مثال خدا تعالیٰ نے آج سلسلہ قائم کیا ہے کہ آخری خلیفہ محمدی یعنی مہدی و مسیح کو سیدوں میں سے نہیں بنایا گیا ۔بلکہ فارسی الاصل لوگوں میں سے ایک کو خلیفہ بنایا،تا کہ یہ نشان ہو کہ نبوت محمدی کی گدی کے دعویداروں کی حالت تقویٰ اب کیسی ہے۔‘‘ فرمایا: ’’انبیاء کا قاعدہ ہے کہ شخصی تدبیر نہیں کرتے۔نوع کے پیچھے پڑتے ہیں۔جہاں شخصی تدبیر آئی وہاں چنداں کا میابی نہ آئی؛چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یہ حال ہوا۔‘‘ اس زمانہ کا مجاہدہ مدت کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ سے دریافت کیا کہ اس سلسلہ میں کوئی مجاہدہ تھے مجھے بتلائیے۔آپ نے فرمایا :’’عیسائیت کے رد میں کوئی کتاب لکھو۔‘‘ تب حضرت مولوی صاحب نے کتاب فصل الخطاب لمقدمۃ اہل الکتاب دو جلدیں لکھیں۔پھر ایک دفعہ ایسا ہی مولو ی صاحب نے حضرت اقدس ؑ سے سوال کیا ۔حضرت نے فرمایا:’’آریوں کے رد میں کتاب لکھو۔‘‘ تب مولوی صاحب نے تصدیق براہین احمدیہ لکھی اور فرمایا کہ ان ہر دو مجاہدوں میں مجھے بڑے بڑے فائدے ہوئے۔‘‘ (الحکم جلد نمبر۲۳ صفحہ۱۰۔۱۱ پرچہ۲۴؍جون۱۹۰۱؁ئ)