ہوتا کہ اپنے ولی کو قبض روح کروں۔خدا تعالٰٰ نہیں چاہتا کہ اس کے ولی کو کوئی تکلیف آوے۔مگر ضرورت اور مصالح کے واسطے وہ دکھ دئے جاتے ہیں اور اس میں خود ان کے لئے نیکی ہے۔کیونکہ ان کے اخلاق ظاہر ہوتے ہیں۔انبیاء اور اولیا اللہ کے لئے تکلیف اس قسم کی نہیں ہوتی۔جیسے کہ یہود کو لعنت اور ذلت ہو رہی ہے۔جس میں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے،بلکہ انبیاء شجاعت کا ایک نمونہ قائم کرتے ہیں۔خدا تعالیٰ کو اسلام کے ساتھ کوئی دشمنی نہ تھی۔مگر دیکھو جنگ حنین میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اکیلے رہ گئے۔اس میں یہی بھید تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم دس ہزار کے مقابل میں اکیلے کھڑے ہو گئے۔ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں ۔ایسا نمونہ دکھانے کا کسی نبی کو موقع نہیں ملا ۔ہم اپنی جماعت کو کہتے ہیں کہ وہ صرف اپنے پر ہی مغرور نہ ہو جائے کہ ہم نماز روزہ کرتے ہیں یا موٹے موٹے جرائم مثلاً زنا چوری وغیری نہیں کرتے۔ان خوبیوں میں تو کچر غیر فرقہ کے لوگ مشرک وغیرہ تمہارے ساتھ شامل ہیں۔
تقویٰ کا مضمون باریک ہے۔اس کو حاصل کرو۔خدا کی عظمت دل میں بٹھاؤ۔جس کے اعمال میں کچھ بھی ریا کاری ہو خدا اس کے عمل کو الٹا اس کے منہ پر مارتا ہے۔متقی ہونا مشکل ہے۔مثلاً اگر تجھے کوئی کہے کہ تو نے قلم چرایا ہے تو تو کیوں غصہ کرتا ہے۔تیرا پرہیز تو محض خدا کے لئے ہے۔یہ طیش اس واسطے ہوا کہ رو بحق نہ تھا۔جب تک واقعی طور پر انسان پر بہت سی موتیں نہ آجائیں وہ متقی نہیں بنتا۔معجزات اور الہامات بھی تقویٰ کے فرع ہیں۔اصل تقویٰ ہے۔اس واسطے تم الہامات اور رویاء کے پیچھے نہ پڑو،بلکہ حصول تقویٰ کے پیچھے پڑو۔جو متقی ہے، اس کے الہامات بھی صحیح ہیں اور اگر تقویٰ نہیں،تو الہامات بھی قابل اعتبار نہیں۔ان میں شیطان کا حصہ ہو سکتا ہے۔کسی کے تقویٰ کو اس کے ملہم ہونے سے نہ پہچانو۔بلکہ اس کے الہاموں کو اس کی حالت تقویٰ سے جانچو اور اندازہ کرو۔سب طرف سے آنکھیں بند کر کے پہلے تقویٰ کے منازل طے کرو۔انبیاء کے نمونے کو قائم رکھو۔جتنے نبی آئے،سب کا مدعا یہی تھا کہ تقویٰ کی راہ سکھلائیں۔ان اولیاؤ ہ الا المتقون(الانفال:۳۵)مگر قرآن شریف نے تقویٰ کی باریک راہوں کو سکھلایا ہے۔کمال نبی کا کمال امت کو چاہتا ہے۔چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم خاتم النبین تھے صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر کمالات نبوت ختم ہوئے۔کمالات نبوت ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم نبوت ہوا ۔جو اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہے اور معجزات دیکھنا چاہے اور خوار ق عادت دیکھنا منظور ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی بھی خارق عادت بنالے۔دیکھو امتحان دیکھنے والے محنتیں کرتے کرتے مدقوق کی طرح بیمار اور کمزور ہو جاتے ہیں۔پس تقویٰ کے امتحان میں پاس ہونے کے لئے ہر ایک تکلیف اٹھانے کے لئے رتیار ہو جاؤ۔جب انسان اس راہ میں قدم اٹھاتا ہے،تو شیطان اس پر بڑے بڑے حملے کرتا ہے۔لیکن ایک حد پر پہنچ کر آخر شیطان ٹھہر جاتا ہے۔یہ وہ وقت ہے کہ جب انسان کی سفلی زندگی پر موت آکر وہ خدا کے زیر سایہ ہو جاتا ہے۔