خشیۃاللہ(الحشر:۲۲)اس آیت کی تفسیرمیں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ:
’’ایک تو اس کے یہ معنی ہیںکہ قرآن شرے ف کی ایسی تاثیر ہے کہ اگر پہاڑ پر وہ اترتا ۔تو پہاڑ خوف خدا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور زمین کے ساتھ مل جاتا ۔جب جمادات پر اس کی ایسی تفسیر ہے تو بڑئے ہی بے وقوف وہ لوگ ہیں جو اس کی تاثیر سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور دوسرے اس کے یہ معنی ہیں کہ کوئی شخص محبت الٰہی اور رضائے الٰہی کوحاصل نہیں کر سکتا ۔جب تک اس میں دو صفتیں پیدا نہ ہو جائیں۔اورتو تکبر کو توڑنا جیسا کہ کھڑا ہوا پہاڑ جس نے سر کو اونچا کیا ہوا ہوتا ہے گر کر زمیں سے ہموار ہو جائے۔اسی طرح انسان کو چاہیے کہ تمام تکبر اور بڑائی کے خیالات کو دور کرے۔عاجزی اور انکساری کو اختیار کرے اور دوسرا یہ ہے کہ تمام تعلقات اس کے ٹوٹ جائیں جیسا کہ پہاڑ گر کر متصدعاً ہو جاتا ہے۔اینٹ سے اینٹ جدا ہو جاتی ہے ۔ایسا ہی اس کے پہلے تعلقات ٹوٹ جائیں اور ا اس کی ملاقاتیں اور دوستیاں اور محبتیں اور عداوتیں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے رہ جائیں۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے مسیح موعود ؑ کو سلام
فرمایا:حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جو مسیح موعود کو السلام علیکم کہا ہے۔اس میں ایک عظیم الشان پیش گوئی تھی کہ باوجود لوگوں کے سخت مخالفتوں کے اور ان کے طرح طرح کے بد اور جانستان منصوبوں کے وہ سلامتی میں رہے گا اور کامیاب ہو گا۔ہم کبھی اس بات پر یقین اور اعتقاد نہیں کر سکتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے معمولی طور سے سلام فرمایا۔آنحضرت ؐ کے لفظ لفظ میں معارف واسرار ہیں۔‘‘؎۱
تقویٰ کی حقیقت
فرمایا:’’تقویٰ والے پر خدا کی ایک تجلی ہوتی ہے ۔وہ خدا کے سایہ میں ہوتا ہے ،مگر چاہیے کہ تقویٰ خالص ہواور اس میں شیطان کا کچھ بھی حصہ نہ ہو ورنی شرک خدا کو پسند نہیں ہے اور اگر کچھ حصہ شیطان کا ہو تو خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ سب شیطان کا ہے۔خدا کے پیروں کو جو دکھ ٓاتا ہے وہ مصلحت الٰہی سے آتا ہے ؛ورنہ ساری دنیا اکٹی ہو جائے ،تو ان کو ایک ذرہ بھر بھی تکلیف نہیں دے سکتی؛چونکہ وہ دنیا میں ایک نمونہ قائم کرنے کے واسطے ہوتے ہیں۔اس واسطے ضروری ہوتا ہے کہ خدا کی راہ میں تکلیف اٹھانے کا نمونہ بھی وپ لوگون کو دکھائیں؛ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے کسی بات میں اس سے بڑھ کر تردد نہیں