کے سبب آتی ہے ؛ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا سایہ ہوتا ہے ۔مومن کے لئے خدا تعالیٰ اپنے سامان مہیا کر دیتا ہے۔میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو۔خدا کے حقوق بھی تم تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تم تلف نہ کرو۔‘‘
۲۰؍مئی۱۹۰۱ء
ضرورت سے زیادہ مساجد کی تعمیر
کہیں سے خط آیا کہ ہم ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں اور تبرکاً آپ سے بھی چندہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔حضرت
اقدس نے فرمایا کہ:
’’ہم تو دے سکتے ہیں اور یہ کچھ بڑی بات نہیں ہے،مگر جبکہ خود ہمارے ہاں بڑے بڑے اہم اور ضروری سلسلے خرچ کے موجود ہیں۔ جن کے مقابل میں ان خرچوںمیں شامل ہونا اسراف معلوم ہوتا ہے ۔تو ہم کس طرح شامل ہوں۔یہاںجو مسجد خدا بنا رہا ہے اور وہی مسجد اقصیٰ ہے اور وہ سب سے مقدم ہے۔اب لوگوں کو چاہیے کہ اس کے واسطے روپیہ بھیج کر ثواب میں شامل ہوں ۔ہمارا دوست وہ ہے جو ہماری بات کو مانے نہ وہ جو کہ اپنی بات کو مقدم رکھے۔حضرت امام ابو حنیفہ کے پاس ایک شخص آیا کہ ہم ایک مسجد بنانے لگے ہیں ۔آپ بھی اس میں کچھ چندہ دیں۔انہوں نے اس میں عذر کیا کہ میں اس میں کچھ بھی نہیں دے سکتا ؛حالانکہ وہ چاہتے تو بہت کچھ دے دیتے۔اس شخص نے کہا کہ ہم آپ سے بہت کچھ نہیں مانگتے صرف تبرکاً کچھ دے دیں۔آخر انہوںنے ایک دونی کے قریب سکہ دیا۔شام کے وقت وہ شخص دونی لے کر واپس آیا اور کہنے لگا کہ حضرت یہ تو کھوٹی نکلی ہے۔وہ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا۔خوب ہوا۔دراصل میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ میں کچھ دوں۔مسجدیں بہت ہیں اور مجھے اسمیں اسراف معلوم ہوتا ہے۔‘‘؎۱
۳؍جون۱۹۰۱ء
رضائے الٰہی کے حصول کا طریق
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی تعریف میں جو فرمایا ہے۔لو انزلنا ھذا القران علی جبل لرایتہ خاشعا
متصدعا من