اصل نہ ہوتی اور فطرت انسانی کے ٹھیک مناسب نہ ہوتی تو کروڑوں موتوں کے سامنے ایسے استقلال کے ساتھ وہ اپنی بات پر قائم نہ رہ سکتے۔
دنیا کے قید خانہ ہونے کی حقیقت
فرمایا:آئیندہ زندگی میں مومن کے واسطے بڑی تجلی کے ساتھ ایک بہشت ہے۔لیکن اس دنیا میں اس کو ایک مخفی
جنت ملتی ہے۔یہ جو کہا گیا ہے کہ دنیا مومن کے لئے سجن یعنی قید خانہ ہے۔اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ ابتدائی حالت میں جبکہ ایک انسان جبکہ اپنے آپ کو شریعت کی حدود کے اندر ڈال دیتا ہے اور وہ اچھی طرح اس کا عادی نہیں ہوتا ،تو وہ وقت اس کے لئے تکلیف کا ہوتا ہے۔کیونکہ وہ لا مذہبی کی بے قیدی سے نکل کر نفس کے مخالف اپنے آپ کو احکام الٰہی کی قید میں ڈال دیتا ہے،مگر رفتہ رفتہ وہ اس سے ایسا انس پکڑتا ہے کہ وہی مقام اس کے لئے بہشت ہو جاتا ہے۔اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو قید خانہ میں کسی پر عاشق ہو گیا ہو۔پس تم کیا خیال کرتے ہو کہ وہ قید خانہ سے نکلنا پسند کرتا ہو گا۔‘‘
اپنی زبان میں دعا
سوال ہوا کہ آیا نماز میں اپنی زبان میں دعا مانگنا جائز ہے۔حضرت اقدس نے فرمایا:
’’سب زبانیں خدا نے بنائی ہیں۔چاہیے کہ اپنی زبان میں جس کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے ۔نماز کے نادر دعائیں مانگے،کیونکہ اس کا ثر دل پر پڑتا ہے تا کہ عاجزی اور خشوع پیدا ہو۔کلام الٰہی کو ضرور عربی میں پڑھو اور اس کے معنی یاد رکھو اور دعا بے شک اپنی زبان میں مانگو ۔جو لوگ نماز کو جلدی جلدی پڑھتے ہیں اور پیچھے لمبی دعائیں کرتے ہیں۔وہ حقیقت سے نہ آشنا ہیں۔دعا کا وقت نماز ہے ۔نماز میں بہت دعائیں مانگو۔‘‘
۱۸؍مئی۱۹۰۱ء
ظالم حاکم
فرمایا:’’اگر حاکم ظالم ہو تو اس کو برا بھلا نہ کہتے پھرو۔بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو۔خدا س کا بدل دے گا یا اسی کو نیکی کر دے گا ،جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بد عملیوں