غفلت میں گزر جاتے ہیں۔ایسی کوشش کرنی چاہیے کہ خوف الٰہی دل پر غالب رہے۔جب تک انسان طول عمل کو چھوڑ کر اپنے پر موت کو وارد نہ کر لے تب تک اس سے غفلت دور نہیں ہوتی۔چاہیے کہ انسان دعا کرتا رہے۔یہاں تک کہ خدا اپنے فضل سے نور نازل کر دے۔جو یندہ یا بندہ۔‘‘ وفات مسیح پر ایک لطیف استدلال فرمایا:’’احادیث میں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جب مسیح آوے،اس کو میرا سلام کہنا۔ اس حدیث کے مطلب میں غور کرنا چاہیے۔اگر مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود تھے تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی ملاقات معراج میں کی تھی اور نیز حجرت جبرائیل ہر روز وہاں سے آتے تھے۔کیوں نہ ان کے ذریعے سے اپنا سلام پہنچایا۔اور پھر رسول اکرم لی اللہ علیہ والہ وسلم بھی بعد از وفات ااسمان پر گئے تھے اور وہیں حضرت مسیح بھی ہیں اور حضرت مسیح کو تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس سے ہو کر زمین پر اترنا تھا۔تو پھر اس کے کیا معنی ہوئے کہ زمین والے ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سلام پہنچائیں۔کیا سا صورت میں حضرت عیسیٰ ان کو یہ جواب نہ دیں گے کہ میں تو خود ان کے پاس سے آتا ہوں تو تم یہ سلام کیسا دیتے ہو؟یہ تو مثال ہوئی کہ گھر سے تو میں آتا ہوں اور خبریں تم دو۔اسا سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا یہی عقیدہ اور مذہب تھا کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں اور دنیا میں واپس نہیں آسکتے اور آنے والا مسیح اسی امت میں سے بروزی رنگ میں ہو گا۔‘‘ سچی لذت اللہ تعالیٰ کی محبت میں ہے سوال ہوا کہ فواحشات کی طرف لوگ جلد جھک جاتے ہیں اور ان سے لذت اٹھاتے ہیں جن سے خیال ہو سکتا ہے کہ ان میں بھی ایک تاثیر ہے۔فرمایا: ’’بعض اشیاء میں نہاں در نہاں ایک ظل اصل شے کا آجاتا ہے۔وہ شے لطیفی طور پر کچھ حاصل کر لیتی ہے۔مثلاً راگ اور خوش الحانی،لیکن دراصل سچی لذت اللہ تعالیٰ کی محبت کے سوا اور کسی شے میں نہیں ہے۔اورا س کا ثبوت یہ ہے کہ دوسری چیزوں سے محبت کرنے والے آخر اپنی حالت سے توبہ کرتے ہیں اور گھبراتے اور اضطراب دکھاتے ہیں۔مثلاً ہر ایک فاسق اور بد کار سزا کے وقت اور پھانسی کے وقت اپنے فعل سے پریشانی ظاہر کرتا ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والوں کو ایسے استقامت عطا ہوتی ہے کہ وہ ہزار ایذائیں دئے جائیں،مارے جائیں،قتل کیے جائیں ذرا جنبش نہیں کھاتے۔اگر وہ شے جو انہوں نے حاصل کی ہے