اس کے بعد پادریو ں نے مکرر حضرت اقدس کا شکریہ ادا کیا اور پھر کتب خانہ میں حضرت اقدس علیہ اصلوۃ والسلام اور دفتر اخبار الحکم سے کچھ کتابیں لیں اور واپس چلے گئے۔
دو الہامات
۱۸؍اپریل۱۹۰۱ء
کو آپ نے ایک الہام سنایا تھا۔
سال دیگر را کہ مے داند حساب تا کجار رفت آنکہ باما بود یار
۹؍مئی۱۹۰۱ء
کو آپ نے یہ الہام سنایا۔
’’آج سے یہ شرف دکھائیں گے ہم‘‘
تفسیر نویسی
اس بات کا ذکر آیا کہ ٓاج کل لوگ بغیر سچے علم اور واقفیت کے تفسیریں لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔اس پر فرمایا:
’’تفسیر قرآن میں دخل دینا نہایت نازک امر ہے۔مبارک اور سچا دخل اس کا ہے جو روح القدس سے مدد لے کر دخل دے؛ورنہ علوم مروجہ کو لکھنا دنیا داروں کی چالاکیاں ہیں۔‘‘
قبر کی پختگی کا مسئلہ
ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میرا بھائی فوت ہو گیا ہے۔میں اس کی قبر پکی بناؤں یا نہ بناؤں؟
فرمایا:’’اگر نمود اور دکھلاوے کے واسطے پکی قبریں اور نقش و نگار اور گنبد بنائے جائیں،تو یہ حرام ہے۔لیکن اگر خشک ملا کی طرح یہ کہا جائے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جائے تو یہ بھی حرام ہے۔انما الاعمال بالنیات عمل نیت پر موقوف ہے۔ہمارے نزدیک بعض وجوہ میں پکی کرنا درست ہے۔مثلاً بعض جگہ سیلاب آتے ہیں بعض جگہ قبر میں سے کتے اور بجو وغیرہ نکال لے جاتے ہیں مردے کے لئے بھی ایک عزت ہوتی ہے ،اگر ایسے وجوہ پیش آجائیں تو اس حد تک کہ نمود اور شان نہ ہو بلکہ صدمے سے بچانے کے واسطے قبر کا پکا کرنا جائز ہے۔اور اللہ اور رسول نے مومن کی لاش کے واسطے بھی عزت رکھی ہے۔ورنہ عزت ضروری نہیں کہ غسل دینے۔کفن دینے خوشبو لگانے کی کیا ضرورت ہے۔مجوسیوں کی طرح جانوروں کے آگے پھینک دو ۔مومن اپنے لئے ذلت نہیں چاہتا۔حفاظت ضروری ہے جب تک نیت