ہے کہ جو لوگ یہاں سے چلے جاتے ہیں۔ان کی خو،خصلت اور اخلاق پر ایک اور شخص آتا ہے۔اور اس کا آنا گویا اس شخص کا آنا ہوتا ہے۔اور یہ بات ے معنی اور بے سند بھی نہیں ہے۔خود انجیل نے اس عقدہ کو حل کیا ہے۔یہود جو مسیح ابن مریم سے پیشتر ایلیا نبی کے آنے کے منتظر تھے اور ملا کی نبی کی کتاب کے وعدہ کے موافق ان کا حق تھا کہ وہ انتظار کرتے۔لیکن چونکہ وہ ظاہر بین اور الفاظ پرست تھے۔اس لئے وہ حقیقت سے آشنا نہ ہوئے۔اور ایلیا ہی کا انتظار کرتے رہے۔جیسا کہ تورایت اور نبیوں کی کتابوں میں لکھا تھا۔جو وعدہ پر آتا ہے وہی موعودہو ۔ان کو یہ غلطی لگی کے مسیح موعود سے پہلے ایلیا آئے گا ۔ان کی نظر چونکہ موٹی تھی اس لئے وہ انتظار کرتے رہے کہ ایلیا پہلے آئے۔چانچہ ایک بار وہ مسیح کے پاس گئے اور یہ سوال کیا ۔آپ نے یہی جواب دیا کہ ایلیا تو آگیا ہے اور وہ یہ یوحنا ہے ۔وہ یوحنا کے پاس گئے۔اس سے پوچھا۔انہوںنے کہا کہ میں ایلیا نہیں ہوں۔چونکہ ان کے دل پاک نہ تھے۔اس لئے اس کو تناقض پر محمول کیا اور اس سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ یہ مسیح سچامسیح نہیں ہے۔۔حالانکہ مسیح علیہ السلام نے جو کچھ کہا وہ بالکل سچ تھا اور اس میں کوئی تناقض نہ تھا۔مسیح علیہ السلام کا مطلب صرف یہ تھا کہ یوحنا جس کو مسلمان لوگ یحیٰی کہتے ہیں۔ایلیا کی خو اور طبیعت اور قوت پر آیا ہے۔مگر انہوں نے سچ مچ سمجھا کہ وہی ایلیا جو ایک بار پہلے آچکا تھا وہی دوبارہ آگیا ہے؛حالانکہ خدا تعالیٰ کے قانون مقررہ کے یہ خلاف ہے۔اس کا قانون یہی ہے کہ جو ایک بار اس دنیا سے اٹھائے جاتے ہیں ،وہ دوبارہی نہیں آتے۔ہاں اگر خدا تعالیٰ چاہے تو ان کی طبیعت اور خو پر کسی دوسرے بندے کو بھیج دیتا ہے،اور شدت مناسبت کے لحاظ سے وہ دونوں دوجدا جدا انسان نہیںہوتے،بلکہ ایک ہی ہوتے ہیں۔ مسیح کا ذاتی فیصلہ غرض مسیح نے اپنے آنے سے پہلے ایلیا کے آنے کا وعدہ اور عقدہ کا اس طرح حل کر کے ایک فیصلہ ہمارے ہاتھ میں دے دیا ہے ۔یہ وہ فیصلہ ہے جو خود مسیح نے اپنی عدالت میں اپنی سچائی کے ثبوت میں اپنے سے پہلے ایک نبی کے دوبارہ آنے کے متعلق کیا ہے۔کہ کسی کی دابارہ آنے سے مراد اس کی خو اور طبیعت پر آنے والے سے ہوتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہم السلام نے یہ ہر گز نہیں کہا کہ ایلیا تو یوں آیا۔یعنی یوحنا ہی اس کی خو اور طبیعت پر آگیا۔لیکن میں خود ہی آؤں گا۔اگر اس قسم کی صراحت انہوں نے کہیں انجیل میں کی ہے۔تو ہو بتانی چاہیے۔مگر ایک بھی ایسا مقام نہیںہے جہاں انہوں نے اپنی آمد اور ایلیا کی آمد میں تفریق کی ہو ،بلکہ ایلیا کہ قصہ کا فیصلہ کر کے اپنی آمد ثانی کے مسئلہ کو حل کر دیا ہے۔پس ایسی صورت میں ہر ایک طالب حق کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس فیصلہ کے بعد چوں چرا نہ کرے۔اور کوئی ایسی بحث نہ کرے جس میں وقت ضائع ہو ،کیونکہ یہ تو بالکل ایک سیدھی سی بات ہے۔مثلاً ایک آدمی کہے کہ ہر انسان کی دو آنکھیں ہوتی ہیں اور دس بیس